سیف اللہ سپرا
بر صغیر کی عظیم فنکارہ ملکہ ترنم نور جہاں کو ہم سے بچھڑے آج چودہ برس بیت گئے ہیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے صدا بہار گانوں کی بدولت آج بھی ہم میں موجود ہیں بہت سے گلوکار ان کے گائے ہوئے گانے گاکر مقبول ہو رہے ہیں ان جیسا بڑا فنکار نہ تو پہلے تھا اور نہ ہی مستقبل میں اس کا امکان ہے۔ ان کے فن کی پوری دنیا معترف ہے۔ بھارت کی عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر بھی ان کے فن کی دلدادہ ہیں۔ انہوں نے جو گانا بھی گایا وہ مقبول ہوا‘ غزل گیت سمیت گائیکی کی تقریباً سبھی اصناف میں انہیں گانے کی مہارت تھی۔ ان کی شاندار آواز کی بدولت انہیں ملکہ ترنم نورجہاں کے خطاب سے نوازا گیا۔ وہ نہ صرف گائیکی میں مہارت رکھتی تھیں بلکہ ایک بہترین اداکارہ بھی تھیں۔ بہت سی فلموں میں انہوں نے بطور اداکارہ اور گلوکارہ کام کیا۔ فلموں میں ان کے گانے کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے جو گانا گایا وہ مقبول ہوا جس فلم میں گانے گائے وہ فلم سپر ہٹ ہوئی۔ ملکہ ترنم نورجہاں کا تعلق قصور کے ایک گائیک گھرانے سے تھا ان کا سال پیدائش1925 یا 1926 بتایا جاتا ہے ان کی آواز بچپن میں ہی بہت اچھی تھی ان کے بارے میں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ وہ پیدائشی فنکارہ تھیں تقریباً دس سال کی عمر میں انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز پنجابی زبان میں بننے والی پہلی متکلم فلم شیلا عرف پنڈ دی کڑی سے بطور چائلڈ سٹار بے بی نور جہاں کے نام سے کیا۔ ان کا پیدائشی نام اللہ وسائی تھا‘۔ ملکہ ترنم نورجہاںنے اپنا پہلا فلمی گانا“ لنگ آجا پتن چناں د ا“ گایا۔ بطور چائلڈ سٹار بے بی نورجہاں نے متعدد فلمیں کیں جن میں گل بکاو¿لی“سسی پنوں‘ ہیرسیال‘شامل ہیں‘ انہوں نے بطور ہیروئن بھی متعدد فلمیں کیں جن میں خاندان، دوست نوکر، زینت، جگنو، دہائی، ہمجولی، لال حویلی، گاﺅں کی گوری، بھائی جان، انمول گھڑی، بڑی ماں، نادان، مرزا صاحبان، جگنو، دوپٹہ، گلناز، انتظار، لخت جگر، نیند، انار کلی، کوئل، پاٹے خان، چن وے ، چھو منتر، اور مرزا غالب شامل ہیں۔ بطور ہیروئن پہلی فلم ”خاندان“ کی اس میں انہوں نے گانے بھی گائے۔ جو بہت مقبول ہوئے ان میں ”تو کون سی بدلی میں میرے چاند ہے آجا“ ”میرے لئے جہاں میں نہ چین ہے نہ قرار ہے“ شامل تھے۔ ایک اندازے کے مطابق انہوں نے دس ہزار کے قریب نغمے گائے، جن میں: آواز دے کہاں ہے، جس دن سے پیا، سانوں نہر والے پل تے بلا کے، چاندنی راتیں، دل دا جانی، آج کی رات، مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ، گائے گی دنیا گیت میرے، میں صدا ہوں اپنے پیار کی شامل ہیں، انہوں نے 1965ءکی جنگ میں جو ملی نغمے گائے وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں یہ ملی نغمے بہت مقبول ہوئے اور ان نغموں نے پاک فوج کے جوش وجذبے میں بے پناہ اضافہ کیا۔ نور جہاں کے مقبول ملی نغموں میں اے وطن کے سجیلے جوانوں، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں راکھاں، میرا ماہی چھیل چھبیلا کرنیل نی جرنیل نی، اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے شامل ہیں ملکہ ترنم نور جہاں نے ریڈیو، پی ٹی وی اور فلم انڈسٹری کے لئے بہت کام کیا۔ ریڈیو پاکستان پر ان کے نغموں کی ریکارڈنگ زیادہ تر اعظم خان جو اس وقت ریڈیو کے پروڈیوسر تھے، نے کی پی ٹی وی پر بھی ان کے نغموں کا پروگرام پیش کیا گیا۔ یہ پروگرام اس وقت معروف پروڈیوسر جو بعد میں لاہور مرکز کے جنرل مینجر بھی بنے، فرخ بشیر نے کیا، فلموں کے لئے ان کے گیت زیادہ تر وجاہت عطرے نے ریکارڈ کئے۔ ہم نے مذکورہ تینوں شخصیات سے ملکہ ترنم نور جہاں کے حوالے سے گفتگو کی جس کے منتخب حصے قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کئے جا رہے ہیں۔
پی ٹی وی کے مقبول پروگرام “ترنم“ کے پروڈیوسر اور سابق جی ایم پی ٹی وی لاہور فرخ بشیر نے ملکہ ترنم نور جہاں اور پروگرام ترنم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی وی کا پروگرام ”ترنم“ سیریز کی شکل میں دو دفعہ چلا۔ دونوں سیریز کے 13-13 پروگرام تھے۔ پہلی دفعہ 1980ءمیں چلا اور دوسری دفعہ 1992ءمیں چلا۔ دونوں دفعہ یہ پروگرام میں نے پروڈیوس کیا۔ ملکہ ترنم نور جہاں اس پروگرام میں اپنے گانے دوبارہ ریکارڈ کراتی تھیں۔ اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ نور جہاں نے پی ٹی وی کے کسی پروگرام میں پہلی دفعہ غزلیں گائیں۔ یہ غزلیں فیض احمد فیض ولی دکنی اور دیگر بڑے شعرا کی تھیں۔ اس پروگرام میں انہوں نے خواجہ خورشید ا نور، استاد نذر حسین، ماسٹر عنائیت، ماسٹر عبداللہ، رشید عطرے، وجاہت عطرے اور وزیرافضل جیسے نامور موسیقاروں کے گانے گائے۔ ملکہ ترنم پی ٹی وی پر بڑے شوق سے گانے عکسبندی کرواتیں۔ اس پروگرام کی لائٹنگ سپیشل ویڈیو افیکٹس اور سیٹوں کا خاص اہتمام کیا جاتا۔ وہ اپنے لباس اور میک اپ کا بہت خیال رکھتیں۔ ہر گانے کے موڈ کے لحاظ سے کپڑے پہنتیں اور میک اپ کرواتیں۔ گانے کے دوران ان کے چہرے کے تاثرات گانے کے مفہوم موڈ آتیں اور موسیقی کے عین مطابق ہوتے۔ وہ جب پی ٹی وی پر آئین تو وہاں پر کام کرنے والوں کے ساتھ بہت پیار اور محبت سے پیش آتیں۔ وہ پروفیشنل لوگوں کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتیں۔
معروف موسیقار وجاہت عطرے نے ملکہ ترنم نور جہاں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ملکہ ترنم نور جہاں کے تین ہزار کے قریب گانے ریکارڈ کئے ہیں۔ جو بہت مقبول ہوئے ان میں:۔
آندا تیرے لئی ریشمی رومال، وگدی ندی دا پانی، وے سونے دیا کنگناں سودا اکو جیا، میں تے میرا دلبر جانی، تو جے میرے ہمیشہ کول روئیں، جے میں ہوندی ڈھولنا سونے دی تویتڑی شامل ہیں۔ ملکہ ترنم نور جہاں نہ صرف فنکارہ بہت بڑی تھیں بلکہ انسان بھی بہت بڑی تھیں۔ جب وہ گانا ریکارڈ کروانے آتیں تو سٹوڈیو کے کارکنوں کے ساتھ خصوصی شفقت سے پیش آتی۔ ان جیسی گلوکارہ نہ ماضی میں ہوئی ہے اور نہ مستقبل میں ہوگی۔
ریڈیو پاکستان کے سابق پروڈیوسراعظم خان نے ملکہ ترنم نور جہاں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کر میں نے 1965ءکی جنگ کے دوران ریڈیو پر ملکہ نرنم نور جہاں کے گیارہ گانے ریکارڈ کئے۔ 6 ستمبر کو جنگ شروع ہوئی 8 ستمبر کو سٹیشن ڈائریکٹر شمس الدین بٹ کو ملکہ ترنم نور جہاں نے فون کیا اور کہا کہ میں نور جہاں بول رہی ہوں، شمس الدین بٹ نے سمجھا کہ کوئی عورت مذاق کر رہی ہے چنانچہ انہوں نے فون بند کردیا۔ پھر حسن لطیف جو ملکہ ترنم کے گھر میں اس وقت موجود تھے، نے شمس الدین بٹ سے کہا کہ بٹ صاحب! ملکہ ترنم نور جہاں آپ کو فون کر رہی ہیں آپ سن لیں دراصل وہ جنگ کے حوالے سے ملی نغمے ریکارڈ کرانا چاہتی ہیں چنانچہ شمس الدین بٹ نے ملکہ ترنم نور جہاں کو ریڈیو پر بلا لیا اور اس کے ساتھ مجھے کہا کہ میڈم آ رہی ہیں۔ آپ گیٹ پر چلے جائیں۔ میڈم ایک گھنٹے کے بعد آئیں میں انہیں لے کر شمس الدین بٹ کے کمرے میں پہنچ گیا، وہاں پر ناصر کاظمی صوفی غلام مصطفےٰ تبسم اور ایوب رومانی بھی موجود تھے۔ ان تمام افراد کی میٹنگ ہوئی جس میں فیصلہ ہوا کہ روزانہ ایک گانا ریکارڈ ہوگا اور اسی دن نشر ہوگا۔ اس گانے کی پروڈکشن کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی میرے لئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ میں نے صوفی غلام مصطفےٰ تبسم سے کہا کہ آج کے لئے آپ نغمے لکھ کردیں انہوں نے پہلا نغمہ:
”میرے ڈھول سپاہیا “
لکھ کر دیااور کہا کہ اس کی کمپوزیشن کراﺅ۔ میں نے سلیم اقبال سے کہا کہ اس نغمے کی طرز بناﺅ انہوں نے طرز بنائی۔ اور گانا ریکارڈ ہوگیا۔ رات ساڑھے دس بجے یہ گانا آن ائر چلا گیا۔ اس گانے کا بہت ریسپانس ملا۔ خاص طور پر بارڈر پر ہمارے جو بھائی لڑ رہے تھے انہوں نے بہت پسند کیا۔ اس گانے کے نشر ہونے پر بعض لوگوں نے کہا سپاہی پر گانا بنا ہے اب فوجی افسر پر بھی گانا بننا چاہئے جس پر صوفی صاحب نے یہ گانا لکھا:
میرا ماہی چھیل چھبیلا ہائے نی کرنیل نی جرنیل نی
جنگ کے دوران جب فوجی جوان شہید اور زخمی ہو کر سی ایم ایچ ہسپتال پہنچے تو پھر صوفی غلام مصطفےٰ تبسم نے یہ نغمہ لکھا:
اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے
توں لبھدی پھریں بازار کڑے
چوتھا گانا ملکہ ترنم کی آواز میں تنویر نقوی کا ریکارڈ کیا گیا اس کے بول تھے:
”رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو“
پانچواں گانا رئیس امروہوی نے لکھا جس کے بول تھے:
”امید فتح رکھو اور علم اٹھائے چلو“
چھٹے روز، کوئی گانا نہ لکھا گیا تو میڈم نے کہا کہ علامہ اقبال کی نظم‘ ہر لحظہ مومن کی نئی شان نئی آن، قہاری غفاری و قدوسی و جبرود ریکارڈ کر لیتے ہیں۔
ساتویں روز پشتو کے معروف شاعر سمندر خان سمندر نے علامہ اقبال کی مذکورہ نظم کا پشو میں منظوم ترجمہ کیا جو میڈم کی آواز میں ریکارڈ ہوا۔ قصور کے بارڈر پر بھی جنگ ہو رہی تھی چنانچہ آٹھویں روز صوفی غلام مصطفےٰ تبسم نے گانا لکھا میرا سوہنا شہر قصور نی، نویں روز صوفی غلام مصطفےٰ تبسم نے تین فورسز کے لئے گانا بنایا، جس کے بول تھے:
یہ ہواﺅں کے مسافر یہ سمندروں کے راہی
دسواں گانا طالب جالندھری نے لکھا جس کے بول تھے:
تیرے باجرے دی راکھی اڑیا میں ناں بہندی وے
گیارہواں گانا جمیل الدین عالی نے لکھا ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں ریکارڈ ہوا اس کے بول تھے:
اے وطن کے سجیلے جوانو
میرے نغمے تمہارے لئے ہیں
اعظم خان نے کہا کہ ملکہ ترنم نور جہاں بہت بڑی گلوکارہ تھیں ان کی کمی کبھی پوری نہیں ہوگی۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔
oo