بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے برعکس نریندر مودی کا بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا حکم
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا حکم دے دیا ہے جس کے بعد مندر کیلئے تعمیراتی سامان ایودھیا پہنچا دیا گیا ہے۔ 1992ء میں انتہاء پسند جنونی ہندوئوں کے ایک مشتعل ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا اور اسکی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب انتہاء پسند ہندو تنظیم واشواہند پریشد کی طرف سے عندیہ دیا جارہا ہے کہ مندر کی تعمیر کا کام بہت جلد شروع کر دیا جائیگا۔ بی بی سی کے مطابق ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کیلئے 20ٹن پتھر کارسیوک پورم میں پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ پتھر دو ٹرکوں میں بھارتی ریاست راجستھان سے لایا گیا۔ ایک بھارتی خبر رساں ایجنسی نے رام مندر تعمیر تحریک کے مرکزی رہنماء نرتیہ گوپال داس کا بیان جاری کیا ہے جس کے مطابق گوپال داس نے کہا کہ ایودھیا میں رام مندر بنانے کا اب وقت آگیا ہے۔ اس حوالے سے ہندو تنظیم وی ایچ پی کے کارسیوک پورم کے انچارج شردشرما نے بتایا کہ مندر کی تعمیر کیلئے کم از کم دو لاکھ ٹن پتھر درکار ہے اور ابھی 20 ٹن کی پہلی کھیپ آئی ہے۔ دوسری جانب بھارتی ریاست راجستھان میں فسادات کے خطرے کے پیش نظر موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے اور بھلوارا سمیت دوسرے اہم علاقوں میں کشیدہ حالات کے پیش نظر پولیس کو قانون ہاتھ میں لینے والے افراد سے سختی سے نمٹنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔
ایودھیا میں ہندوستان کے پہلے مغل فرمانروا ظہیرالدین بابر نے 1527ء میں بابری مسجد تعمیر کرائی تھی جسے پہلے مسجد جنم استھان (مسجد جائے پیدائش) اور پھر بابری مسجد کا نام دیا گیا۔ ہندو تنظیموں کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ ایودھیا کے جس مقام پر بابری مسجد تعمیر کی گئی وہ درحقیقت انکے دیوتا رام کی جائے پیدائش ہے تاہم انکے اس دعوے کی آج تک کسی مستند حوالے سے تصدیق نہیں ہو سکی اور ہندوئوں کی مذہبی کتاب گیتا میں بھی ’’رام‘‘ کی جائے پیدائش کا کہیں تذکرہ نہیں۔ تاہم انتہاء پسند ہندو تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی کے پہلے دور اقتدار میں انتہاء پسند تنظیموں نے اسی دعوے کی بنیاد پر رام مندر کی تعمیر کی تحریک چلائی جس کے دوران بھارتی سپریم کورٹ کے روبرو اس امر کی یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ رام مندر کی تعمیر سے بابری مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیا جائیگا تاہم 1992ء میں رام مندر کی تعمیر کیلئے ایودھیا میں نکالی گئی ہزاروں ہندوئوں کی ریلی کے بابری مسجد کے پاس پہنچتے ہی مشتعل ہندوئوں نے حملہ کرکے بابری مسجد کو مسمار کر دیا۔ یقیناً یہ اقدام انتہاء پسند ہندو تنظیموں کے طے شدہ ایجنڈے کے تحت ہی اٹھایا گیا تھا جس کیخلاف پورے بھارت میں مسلمان اقلیتوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور بھارتی ریاست اترپردیش میں ہندو مسلم فسادات بھی شروع ہو گئے‘ اس بھارتی ریاست میں ساڑھے تین کروڑ کے قریب مسلمان آباد ہیں جن میں بابری مسجد کو گرائے جانے پر سخت کشیدگی کی فضا پیدا ہوئی۔ اسکے پیش نظر بابری مسجد کی جگہ فوری طور پر رام مندر تعمیر کرنے کا جنون کم ہو گیا جبکہ اسی دوران الٰہ آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ صادر کر دیا کہ جس زمین پر بابری مسجد ہے‘ اسے ہندوئوں اور مسلمانوں میں مساوی تقسیم کردیا جائے‘ اسکے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ صادر کرکے رام مندر کی تعمیر کیلئے ہندو جنونیت کے آگے بند باندھا کہ متنازعہ مقام پر کسی قسم کی تعمیر کی اجازت نہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آج بھی لاگو ہے جس کے باعث اب تک رام مندر کی تعمیر رکی رہی ہے تاہم اب ہندو انتہاء پسندوں کے نمائندہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے خود بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا حکم صادر کر دیا ہے جس کے بعد رام مندر کی تعمیر کیلئے جنونی ہندوئوں کی منزل اور بھی آسان ہو گئی ہے اور جس تیز رفتاری کے ساتھ ایودھیا میں تعمیراتی سامان اور قیمتی پتھر لایا جارہا ہے‘ وہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ’’ہندوتوا‘‘ کے اسیر بھارتی وزیراعظم مودی بھارت کے سیکولر چہرے پر کالک مل کر اپنے دور اقتدار میں ہی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس امر کا قطعاً اندازہ نہیں یا انہوں نے دانستاً اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی صورت میں بھارت کو ہندو مسلم فسادات کی صورت میں کتنا بھاری نقصان اٹھانا پڑیگا۔ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 25 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ بھارتی ریاست اترپردیش‘ راجستھان اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جبکہ مسلمان پورے بھارت میں پھیلے ہوئے ہیں جو بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کسی صورت قبول نہیں کرینگے اور مودی سرکار کا جینا دوبھر کردینگے۔ 1992ء میں بابری مسجد کو گرانے کے ردعمل میں ممبئی اور دہلی سمیت بھارت کے مختلف شہروں میں شروع ہونیوالے ہندو مسلم فسادات میں دو ہزار افراد مارے گئے تھے۔ اگر بی جے پی کی موجودہ مودی سرکار بھارت میں ہندو جنونیت کو فروغ دینے سے باز نہیں آئیگی تو اسے اپنی انتہاء پسندی کا خمیازہ بھاری نقصانات کی صورت میں بھگتنا پڑیگا۔
رام مندر کی تعمیر کی صورت میں یقیناً دنیا بھر میں مسلمان سراپا احتجاج بنیں گے جن کے زخم ہرے ہونگے تو انکے مذہبی جذبات بھی مشتعل ہونگے چنانچہ نریندر مودی سیکولر بھارت میں ہندو جنونیت کی سرپرستی کرکے علاقائی اور عالمی امن کیلئے ایک نئے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں جبکہ ہندو جنونیت پر مبنی انکے پہلے اقدامات کے باعث بھی عالمی برادری میں مودی سرکار کیلئے تحفظات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس تناظر میں نریندر مودی نے جو ریاست بہار کے وزیراعلیٰ ہونے کے ناطے مسلم کش فسادات کی سرپرستی کرتے رہے اور اس بنیاد پر ان کیخلاف فوجداری مقدمات بھی درج ہوئے‘ گزشتہ سال کے بھارتی لوک سبھا کے انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار میں آئے تو انہوں نے بھارت کو عملاً ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی ٹھان لی جس کے تحت مودی سرکار کی سرپرستی میں بھارت کی مسلمان‘ سکھ اور عیسائی اقلیتوں کو جبراً ہندو بنانے کا سلسلہ شروع ہوا اور بھارتی آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر میں ہندو پنڈتوں کو متروکہ املاک خرید کر وہاں مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس کا مقصد درحقیقت مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا تھا تاکہ تقسیم ہند کے فارمولے کی بنیاد پر کشمیر پر ان کا استحقاق ختم کیا جا سکے۔ اسی طرح بھارت میں جنونی ہندوئوں کی نمائندہ تنظیموں آرایس ایس اور شیوسینا کی سرپرستی کرکے انہیں بھارتی مسلمانوں پر حملے کرنے اور پاکستان سے آنیوالے دانشوروں‘ کھلاڑیوں‘ فنکاروں‘ تاجروں اور ڈپلومیٹس تک کا گھیرائو کرکے انہیں پاکستان واپس جانے پر مجبور کرنے کی راہ پر لگایا گیا جس سے عالمی قیادتوں اور عالمی اداروں کو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرات محسوس ہوئے تو انہوں نے مودی سرکار پر بھارت میں ہندو جنونیت ختم کرنے اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر باہمی تنازعات طے کرنے کیلئے دبائو بڑھانا شروع کر دیا۔ یقیناً اس دبائو کو کم کرنے کیلئے ہی مودی سرکار نے ’’بغل میں چھری‘ منہ میں رام رام‘‘ والی پالیسی کا سہارا لیا اور پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر میٹھی زبان کا استعمال شروع کر دیا۔ چنانچہ ،پیرس میں ہونیوالی نواز‘ مودی ملاقات سے بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج کے دورۂ اسلام آباد تک مودی سرکار کی پاکستان کے ساتھ گاڑھی چھنتی نظر آئی اور خیرسگالی کی یہ حیران کن فضا سشماسوراج کے لوک سبھا میں پالیسی بیان تک برقرار رہی جس سے بیرونی دنیا ہی نہیں‘ پاکستان کے بعض حلقوں کو بھی پاکستان بھارت دوستی کے حوالے سے اپنے خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے نظر آئے مگر اگلے ہی روز سشماسوراج سمیت مودی سرکار کے تمام کل پرزوں نے کشمیر پر بھارتی اٹوٹ انگ کی ہٹ دھرمی کو زندہ کر دیا تو پاکستان بھارت دوستی کے خواہاں حلقوں کی ساری خوش فہمیاں کافور ہو گئیں۔ اب نریندر مودی نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہٹ دھرمی کی بنیاد پر ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا خود حکم دیا ہے تو یہ اس امر کا عکاس ہے کہ مسلم دشمنی کا بھوت بدستور انکے دماغ پر سوار ہے اور وہ سیکولر بھارت کو عملاً ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں لکھوانے پر تلے بیٹھے ہیں۔
اگر مودی اپنے ان جنونی عزائم کی تکمیل کیلئے علاقائی اور عالمی امن کو بھی تہس نہس کرنے کے درپے ہیں تو امن کی داعی عالمی قیادتوں اور عالمی اداروں کو محض زبانی جمع خرچ کے تحت نہیں بلکہ ٹھوس اور عملی اقدامات سے مودی سرکار کے جنونی ہاتھ کو ہندو جنونیت پھیلانے سے روکنا ہوگا۔ اس کیلئے بھارت پر اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی اقتصادی پابندیاں لگانے سے آغاز کیا جائے اور ہندو جنونیت میں مبتلا مودی سرکار کا نشہ ہرن کیا جائے‘ بصورت دیگر رام مندر کی تعمیر سے مسلم کمیونٹی میں پیدا ہونیوالا اشتعال ہندو جنونیت کا خود ہی علاج کرلیگا۔ اس صورت میں علاقائی اور عالمی امن غارت ہوا تو اسکی ذمہ داری مودی سرکار کو تھپکی دینے والی عالمی قیادتوں پر بھی عائد ہوگی۔