اس ہفتے کا سب سے زیادہ چونکا دینے والا بلکہ رلادینے والا واقعہ پی آئی کے جہاز کا حادثہ ہے ۔اگرچہ دنیا میںکچھ بھی اللہ کے اذن کے بغیر نہیں ہوتا،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالیں ۔اس حادثے میں 48قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ۔ اس میں جو کوتاہی اس ادارے کی طرف سے ہے یہ واقعی بہت سنگین ہے۔ ایک زمانے میں پی آئی اے ایک مثالی،لاجواب اور قابل فخر ادارہ ہواکرتا تھا۔لیکن اب وہ کس حال تک پہنچ چکا ہے یہ سب کے سامنے ہے۔ ائیر مارشل اصغر خان اور رفیق سہگل کی شب و روز محنت سے اس نے دنیا میں اپنا ایک مقام بنالیا تھا۔یہ ادارہ نفع بخش بھی تھا۔پی آئی اے کے ذریعے سفر کو محفوظ سمجھا جاتا تھا۔دنیا کی کئی ممالک میں فضائی کمپنیاں قائم کرنے میں پی آئی اے نے تعاون کیا تھا۔اب تو یقین نہیں آتا کہ یہ ادارہ کبھی ایسا بھی ہوا کرتا تھا۔ایمیریٹس جو آج صف اول کی ایئر لائن ہے ، اس کے علاوہ سنگاپور اور ملائیشین ایئر لائنز بھی پی آئی کے تعاون سے ہی قائم ہوئی تھیں۔لیکن بعد میں سیاسی بنیادوں پر جو بھرتیاں شروع ہوئیں، اور کرپشن اور اقربا پروری نے اس ادارے میں جڑ پکڑی تومالی طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہوا ۔آج یہ ادارہ کئی ارب روپے کامقروض ہے۔ان سب باتوں کے نتیجے میں حادثات بھی رونما ہورہے ہیں۔ اس کی کارکردگی کا لیول بھی انتہائی نیچے جاچکا ہے۔خبروں کے مطابق اے آر ٹی طیارے کا ایک انجن فلائٹ سے پہلے بھی درست نہیں تھا۔پھر بھی رسک لیا گیا۔یہ بھی ایک المیہ ہے کہ کہ نالائقیوں پر پر دہ ڈالنے کے لئے جو بھی واقعہ ہوتا ہے اس کا ذمہ دار پائلٹ کو قرار دے دیا جاتا ہے جو صریحاً جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ادارے کے لئے یہ کام آسان ہے کیونکہ پائلٹ بے چارہ خود حادثہ کا شکار ہوہوچکا ہوتاہے لہٰذا اس جھوٹ کا دفاع ممکن نہیںہوتا۔دوسرا ایشو یہ ہے کہ حال ہی میں بھارت میں ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس ہوئی ہے۔اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی مشیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب نے کی ہے۔قومی سطح پر ہماری جو ذلت و رسوائی ہوئی ہے اس کا سب کو علم ہے۔انہیں ایئر پورٹ پر 40منٹ تک سیکورٹی کا بہانہ بناکر روکے رکھا گیا۔جتنا وقت بھی انہوں نے وہاں گزارا وہ ہوٹل میں قید کی صورت میں گزارا ہے۔کانفرنس کے بعد بھی انہیں پریس کانفرنس کرنے اور گولڈن ٹمپل جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔کچھ سفارتی آداب بھی ہوتے ہیں جس کی دھجیاں بکھیری گئیں۔ افغانستان کے صدر عبدالغنی نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے دنیا بھر کے الزامات عائد کردئیے۔پاکستان کو دہشتگردی کا گڑھ اور اس کا برآمد کنندہ قرار دیا ۔یہ الزامات مودی نے بھی پاکستان پر لگائے ہیں۔سرتاج عزیز صاحب گویا ایک ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑے رہے۔کسی قدر تلافی روس نے کی اور پاکستان کی حمایت میں کچھ باتیں کیں ۔اس کی جانب سے پاکستان پر عائد کئے گئے الزامات کی مذمت بھی کی گئی۔تاہم جو کچھ وہاں ہوا وہ یقینا بہت ہی افسوسناک ہے۔آخری ایشو قائد اعظم یونیورسٹی کے سنٹر آف فزکس کو ڈاکٹر عبد السلام کو منسوب کئے جانے کا ہے۔سب کو معلوم ہے کہ وہ ایک متعصب قادیانی تھا۔مسئلہ صرف یہی نہیں ہے ، اصل بات یہ ہے کہ وہ اس کا اہل تھا بھی یا نہیں۔حقائق کچھ اور ہیں۔ڈاکٹر عبد السلام نے اس سنٹر کا آئیڈیا ضرور دیا تھا ۔اس کے لئے منصوبہ بندی بھی کی تھی۔لیکن جب 1974ءمیں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تو وہ پاکستان چھوڑکر اٹلی منتقل ہوگیا ۔ساری منصوبہ بندی اور پروگرام وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا۔وہاں اس نے سنٹر آف فزکس قائم کیا ۔قائد اعظم یونیورسٹی کے اس سنٹر کے لئے ڈاکٹر ریاض الدین نے شب و روز محنت کی۔حقیقتا ً وہ اس مرکز کے بانی تھے۔لیکن ان کے نام کی بجائے ڈاکٹر عبد السلام کے نام سے منسوب اس لئے کیا گیا کہ تاکہ ایک قادیانی کو یہ اعزاز دے کر اسلام دشمن قوتوں کی حمایت حاصل کی جائے۔اس طرح دنیا میں اسلام کی رسوائی کا سامان کیا گیا ہے۔قرآن حکیم کے مطابق منافقین کا اصل مرض یہ تھا کہ ان کی دوستیاں یہود کے ساتھ تھیں۔قرآن نے کہا کہ یہود و نصاریٰ ہرگز تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کی ملت کی پیروی نہ کرو۔جب تک تمہارے ساتھ اسلام کا لاحقہ لگاہوا ہے، یہود و نصاریٰ ہم سے راضی نہیں ہوں گے خواہ ہم الٹے لٹک جائیں۔ہم الٹے لٹکنے والے سارے کام کررہے ہیں تاکہ وہ راضی ہوجائیں۔لیکن وہ ہرگز اس پر قناعت نہیں کریں گے۔وہ چاہیں گے کہ اسلام کو چھوڑکر ان کے ملت کی پیروی کی جائے۔انہیں ایک ہی بار یہ فیصلہ کرلینا چاہئے کہ اپنے طور طریقوں کو درست کریں ۔لبرل اسلام کیا ہوتا ہے؟سیکولر زم اور اسلام کا کوئی جوڑ نہیں۔لبرلزم بھی اسلا م کی مکمل نفی ہے۔اسلام میں لوگوں پر کچھ پابندیاں ہیں جن کے تحت زندگی گزارنا ہے۔ہم مکمل آزاد نہیں ۔ حضور ﷺ صاف فرمادیا کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کےلئے جنت ہے۔یہ بات ایک خاص معنی میں ہے۔کافر کے لئے حرام و حلال کی کوئی قید نہیں۔جس طرح دنیا کے قید خانوں میںکچھ پابندیاں ہوتی ہیں، اسی طرح مسلمان دنیا میں بہت ساری چیزوں کا پابند ہے۔اسے یہ آزادی حاصل نہیں کہ جو مرضی میں آئے کرے۔معیشت کی حدیں بھی بتادی گئیں۔معاشرت کی چندحدود ہیں۔ ان پابندیوں کے اندر رہنا ہی اسلام ہے۔ان پابندیوں سے آزادی کفر ہے۔
میاں نواز شریف صاحب نے جو لبرلزم کا نعرہ لگایا تھا وہ اس بات کا اعلان تھا کہ ہمیں اسلام کی حدود و قیود گوارا نہیں۔لبرلزم کا مطلب یہ ہے۔ریاست کا سیاسی، معاشی عدالتی اورمعاشرتی نظام کیا ہوگا۔اس میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہوسکتا۔ہم خود نظام طے کریں گے ۔کسی آسمانی وحی کا عمل دخل ہمیں قبول نہیں ہے۔ہم لبرلزم اور سیکولرزم کی طرف جاکر انہیں خوش کرنا چاہ رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور اسلام کاسچا وفادار بنائے۔آمین یا رب العالمین۔