میں اسی سوچ غلطاں میں‘ اسی فکر میں گم

عوام کی وکالت کرنا کتنا مشکل کام ٹھہرا۔ وجہ سب سے زیادہ اور سب سے بڑی یہ ہے کہ اشرافیہ نے غریب غرباء کو شکار کرنے کیلئے ہر طرز کے اسباب اور آلات پر قبضہ جما رکھا ہے۔ بہت سادہ‘ تیکھی اور مسلسل تنقید حکومت اور حکمرانوں پر آسانی سے کی جا سکتی ہے‘ لیکن ناقدین بھی تو اکثر نیت بیزار ہونے کیساتھ ساتھ اپنے مفادات کے جنونی قیدی ہوتے ہیں۔ بہت ہی زیادہ تقویٰ ہوتا ہے اور دلسوزی کی ڈرامائی عبارت میں مگن ہوکر کچھ کہنا ان کا فرض قلمی‘ لیکن خیالات کے پیچھے تمنائوں کے جلوس کو ہر آن زندہ باد کے نعروں کے ساتھ برقرار رکھنا ان کے نفس کی مجبوری ہے اور اندھے معاش کی طلب ہے۔ کچھ ذاتی آسائش بھی مطلوب تحریر پاتی ہے۔ پرانا قصہ ہے کہ ایک روایتی سیاسی آڑھتی اپنے حساب سے خریداری کیا کرتے تھے۔ کچھ منظم سیاسی دلالوں سے ان کا رابطہ تھا۔ آڑھتی ابھی نئی نئی دکان جما رہے تھے کہ دلالوں کو احساس ہوا کہ یہاں آڑھتی کچھ زیادہ لالچی ہیں اور بڑا جوأ کھیلنا چاہتے ہیں۔ روایتی بروکرز نے پوری دل جمعی اور پیشہ ورانہ دیانت سے ان کیلئے مناسب اہتمام کیا اور کچھ پتے چھپا لئے کہ آخر بلی تو شیر کی خالہ ہی ٹھہری۔آڑھتی نے چھوٹے جوئے جیت کر پائوں جمائے اور بلی کی بے وفا آنکھوں کی معصوم بددیانتی کا تجربہ بھی تھوڑی فیس کے بدلے حاصل کر لیا۔اب بلی کو بھی عادت پڑ گئی کہ اسے خالہ جان ہی کہا جائے‘ لیکن شیر تو آخر شیر ہے۔ گھریلو‘ پالتو تو نہیں‘ آخر جنگلی ہے۔ انسان بیزار ہے۔ بلی اپنی ذات پر پہرہ دیتی ہے۔گھروں کے باورچی خانوں میں گھس کر چوری کا دودھ پینا اس کا عمومی مشغلہ ہے اور چوہوں کو آنکھیں دکھانا اس کی فطرت ‘ غریب‘ معصوم‘ پاکیزہ عمل چڑیوں پر خاموشی سے حملہ آور ہونا اس کے قبیلے کی روایت ہے۔خیر آڑھتی میاں اب ذرا جنگلی اور شہری میں فرق کی مہارت حاصل کر چکے تھے۔ اس لئے بروکرز کو بلا کر کہا کہ میاں اب دلالی کا رواج کم ہو رہا ہے۔ آڑھتی اگتی فصل کی پھونگ سیاست بازوں کی تمنائوں سے واقف ہو چکا اس لئے تمہارا جبری اور صبری کمیشن کم کیا جاتا ہے۔ بروکرز کا دھانسو نمائندہ چلایا کہ خبردار ایسے الفاظ تمہاری زبان پر آئندہ آئے ورنہ تمہیں برسر بازار رسوا کرائوں گا اور بہت زیادہ ہل جل کی کوشش کی تیری مسجد میں آکر تجھے ملا سے ذلیل کرائوں گا۔آڑھتی نے موٹی موٹی آنکھیں گھما کر کہا کہ بازار میں میرے نام کا سکہ چلتا ہے اور مسجد کاملا مجھے خطبے میں السلطان العادل سمجھ کر سایہ خدا بیان کرتا ہے۔ ولایت کی خلعت خوشامد اس نے بہت عرصے سے میرے نام کر رکھی ہے۔ دودھ‘ مکھن‘ کھویا‘ قورمہ‘ بریانی کا نشہ پاکیزہ مگر ام الخبائث کا بھی باپ ہے۔دلالوں کے بڑوں نے خواب میں آکر دھانسو بروکر کو سمجھایا کہ بیٹا تم اپنی سی کرتے رہو۔ اب آڑھتی نے دلالی کی آڑھت بھی کھول لی ہے۔ تیری طرح کے دسیوں چاکر ایسے ہیں جنہوں نے حرام کو حلال اور حلال حرام کرنے کے نسخے آڑھتی کے ہاتھ میں تھما دیئے ہیں اور نسخہ لکھنے کیلئے جو قلم استعمال ہوتا ہے‘ اس کی سیاسی میں کچھ ایسا ملا دیا ہے کہ قلم بہک جاتا ہے اور کچھ قلمکار ہزار تقوے کے باوجود آڑھتی کے قلم سے مرعوب ہوکر مریض ہو گئے ہیں۔ آڑھتی نے ان کے دارو کا انتظام بھی کر دیا ہے۔ اب قلمکار ذرا بوڑھا‘ لیکن بہکی بہکی باتیں لکھتا ہے اور نتیجہ آڑھتی کے حق میں نکلتا ہے۔صاحبو! کہانی بیان کرنے والے اور کہانی لکھنے والے اپنے آپ کو ذرا تھکا تھکا سا محسوس کرتے ہیں‘ لیکن کہانی بنانے والے اسی طرح سے چاق و چوبند ہیں جیسے سردی‘ گرمی میں بوٹ پالش کرنے والا غریب موسم اور عزت و ذلت سے بے پروا ہوکر پائوں سے جوتی نکال کر تھوڑے پیسوں اور کم ترین معاوضے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔آج کی تازہ کہانی تو دو روز سے گردش کر رہی ہے کہ حکومت نے ریگولرائز اتھارٹیز کو وزارتوں کی ماتحتی میں دیدیا ہے اوراب معاشی چلن کی رفتار میں کچھ نئے تغیرات واقع ہو جائیں گے۔ وزارت اور وزیر تو بڑے وزیر کی کچے دھاگے والی چھوٹی سی رسی کو اپنے گلے کے تعویذ میں بطور برکت استعمال کرتے ہیں اور جب سرکار بلائیں تو ہر وزیر کچے دھاگے کو گلے میں باندھے ایسے کورنش بجا لاتے ہیں کہ اکبر اعظم کے نو رتن قبروں میں پڑے پڑے افسوس کرتے ہیں کہ کاش ہم بھی ایسے ہی کورنش بجا لانے کی مشق کیا کرتے۔
اتنا بڑا جھٹکا کہ قانون‘ آئین اس اقدام پر سوال بنا ہوا ہے کہ کس اختیار نے ایسی قوت عطا کر دی ہے جناب وزیراعظم کو کہ جب چاہیں اور جیسے چاہیں اداروں کو بے موت سلا کر بے کفن دفنانے کے احکامات جاری کر دیں۔اخباری خبر سے معلوم ہوا کہ آئندہ الیکشن کا اہتمام بلیغ ہو رہا ہے۔ ایک وضاحت یہ بھی ہے کہ اگر اوگرا‘ نیپرا سے جان نہ چھڑائی جاتی ہے‘ صارفین کو 500 ارب واپس لوٹانا پڑ جاتے بچت کرنے کیلئے بہت سے کٹ لگانا بھی تو معیشت دانوں کا طریقہ ہے۔ 500 ارب اب حکومت کے خزانے میں محفوظ ہو جائیں اور کسی اڑی تھڑی ضرورت میں کام آجائیں گے۔الیکشن ہر نئے دور میں نیا لباس اور نئی چال مانگتے ہیں۔ اب مری میں سیر کرنے کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ جمہوریت کو لباس تازہ دینے کیلئے میثاق جمہوریت لندن کی سرد فضائوں میں طے کیا جاتا ہے۔ لندن کے میثاق کے بعد ایک فریق سے کسی نے سوال کیا تھا کہ آپ نے معاہدے کی فلاں شق کی خلاف ورزی کی ہے۔ جواب میں زمانہ ساز سیاست کار نے فرمایا کہ وہ کونسا قرآن کا لکھا ہوا قول ہے جسے پوری دیانت سے دیکھیں۔ظاہر ہے کہ اب جمہوریت کو نئی شکل اور نئی آب و تاب کے ساتھ بازار سیاست میں اتارنا ہے۔ اس کیلے نئے لوازمات بھی درکار ہیں۔ کتنے ہی ارب مانگتی ہے یہ جمہوریت۔ یہ جمہوریت تو بہت سے لوگوں کی آشائوں کی ماں ہے۔ اسی جمہوریت ماں کے سینے سے لپٹے انہیں سیاست کی خیانت کی حرارت نصیب ہوتی ہے۔ ماں سے بے وفائی نہیں کرتے پابند آداب لوگ۔اور اصول سے جدا نہیں ہوتے وہ لوگ جن کے خیالات کے پس منظر میں تمنائوں کا جلوس ہے۔ وہ تنقید کرتے ہیں‘ لیکن اپنی تمنائوں کی تعمیر کرتے ہیں۔ وہ عبارت آرائی کرتے ہیں‘ لیکن الفاظ اور معانی کو علیحدہ علیحدہ حصوں میں تقسیم رکھتے ہیں۔
وہ قوم کے مفادات کا ذکر کرتے ہیں‘ لیکن اپنے مفادات کی فکر رکھتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن