ہمارے ہاں سیاست او رجمہوریت ایک کاروبار ہے۔ کاروبار کی طرح اسے چلایا جاتا ہے، منافع کمایا جاتا ہے اور اپنے بچوں کو یہ منفعت بخش کاروبار منتقل کردیا جاتا ہے۔ اس فارمولے پر ہماری اکثر بڑی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ اکثر نیشنلسٹ پارٹیاں بھی پوری اترتی ہیں۔ ان کی اپنے فائدے کے لئے کہی ہوئی باتیں معاشرے میں بگاڑ پیدا کرسکتی ہیں لیکن اس سے انہیں کوئی غرض نہیں کیونکہ کاروباری صرف اپنا منافع دیکھتے ہیں۔ آئیے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے ایک ایسے ہی حالیہ سیاسی بیان پر غور کرتے ہیں جو پاکستان کے فائدے کی بجائے اُن کے ذاتی سیاسی فائدے کے لئے ہے۔ یعنی اس بیان کے ذریعے وہ ایک خاص نسل کے لوگوں کو اپنا حامی بناکر اپنے ووٹوں کی حلقہ بندیاں پکی کرنا چاہتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ’’افغان مہاجرین کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں لہٰذا انہیں پاکستانی شہریت دی جائے‘‘۔ اُن کے اس معصوم چالاک بیان پر حیرانگی کی بجائے افسوس ہوا۔ یعنی وہ کہہ رہے ہیں کہ مہمان نوازی کا طریقہ یہ ہے کہ اپنا گھر مہمانوں کے نام کردو۔ اچکزئی صاحب نے یہ دلیل برما کے بدحال اور مظلوم مسلمانوں کے لئے نہیں دی جو صدیوں سے اپنی عزت، جان اور مال لٹا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بات بنگلہ دیش میں پون صدی سے پھنسے لاکھوں بہاریوں کے لئے نہیں کی جو آج تک بنگالی شہریت حاصل نہیں کرسکے۔ انہوں نے یہ مشورہ عرب، یورپی یونین، امریکہ اور کینیڈا کو نہیں دیا جہاں دنیا بھر سے پناہ گزین جاتے ہیں اور مخصوص حالات میں ہی رہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ بیان دے کر وہ افغان مہاجرین کی سیاسی ہمدردیاں حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’پشتون افغان دہشت گرد نہیں ہیں‘‘۔ محمود خان اچکزئی نے صرف ایک نسل پشتون افغان کا دفاع کیا حالانکہ باقی نسلیں یعنی بلوچ، سندھی، پنجابی، کشمیری، بلتی، قبائلی اور پاکستانی پشتون وغیرہ بھی دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گرد ایک مخصوص ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں جو کسی بھی کمیونٹی میں پائے جاسکتے ہیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ کی ہے کہ اے پی ایس پر انسانیت کا بدترین حملہ کرنے والے دہشت گرد پشتون افغان ہی تھے۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان میں اب تک کی دہشت گرد سرگرمیوں کا ڈیٹا مرتب کیا جائے تو ان میں سب سے زیادہ تعداد افغانستان سے آئے یا افغانستان سے سپانسرڈ دہشت گردوں کی ہی ہوگی۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ان پشتون افغانوں کے لئے افغانیہ صوبہ بنایا جائے۔ وہ یہ حکم افغانستان کی حکومت کو کیوں نہیں دیتے تاکہ محمود خان اچکزئی اپنے پشتون افغانوں سمیت افغانستان میں ایک علیحدہ صوبہ بناکر آرام سے حکومت کریں۔ محمود خان اچکزئی کو معلوم ہونا چاہئے کہ صوبے کسی بھی دھرتی پر صدیوں سے آباد لوگوں کے لئے بنائے جاتے ہیں جنہیں اُس دھرتی کے بیٹے بیٹیاں کہا جاتا ہے۔ افغان پاکستان کے بیٹے بیٹیاں نہیں ہیں۔ وہ افغانی ہیں اور اپنی شناخت افغانی کرانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ویسے بھی افغانیوں کی صدیوں پرانی تاریخ ہے کہ وہ برصغیر پر حملہ آور ہی ہوتے آئے ہیں۔ آج کل یہی افغان پاکستان کے طول و عرض میں پھیل کر بڑے بڑے کاروبار کررہے ہیں، زمینیں اور مکان خرید رہے ہیں اور بعض قبضے بھی کررہے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے زور دے کے کہا کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں پار پشتون افغانوں کے حالات خراب ہیں۔ انہیں پنجاب، سندھ، بلوچستان، کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کے دوسرے لوگوں کی خراب حالت نظر نہیں آئی۔ وہ پشتون افغان لوگوں کی حالت زار بہتر کرنے کے لئے ایک مفید ہدایت نامہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کو بھی ارسال کردیتے۔ یہ وہی اشرف غنی ہیں جن کو بھارت نے گود لے لیا ہے اور چوسنی چوسا رہا ہے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ’’پاکستان کی سیاست میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار خطرناک ہے‘‘۔ اچکزئی صاحب نے کتابی باتیں دہرا کر اچھا بننے کی کوشش کی ہے جبکہ زمینی حقائق کے مطابق دنیا کے ہرملک میں انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے اپنے انداز اور اپنے اپنے ملک کے مخصوص حالات کے مطابق سیاست پر ضرور نظر رکھتی ہیں۔ یہ ایک یونیورسل ٹروتھ ہے۔ محمود خان اچکزئی نے فرمایا کہ ’’افغان وطن انتہائی خطرناک بحرانوں سے دوچار ہے‘‘۔ اگر محمود خان اچکزئی کا وطن افغانستان ہے تو انہیں وہاں جاکر اس کے حالات بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر ان کا ملک پاکستان ہے تو انہیں پشتون افغانیوں کی بجائے صرف پشتون پاکستانیوں کی فکر ہونی چاہئے۔ محمود خان اچکزئی نے یہ سب باتیں اپنے والد عبدالصمد خان اچکزئی کی برسی کے موقع پر کہیں۔ یہ وہی عبدالصمد خان اچکزئی تھے جنہیں بلوچستان میں کانگریسی رہنما اور گاندھی کا فرمانبردار ہونے کی وجہ سے ’’بلوچ گاندھی‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ وہی عبدالصمد خان اچکزئی تھے جنہوں نے اپنی طالبعلمی کے دوران افغانستان جاکر انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی بجائے افغانستان کی آزادی کے لئے بندوق اٹھائی تھی۔ یہ وہی عبدالصمد خان اچکزئی تھے جو خلافت موومنٹ کے سرگرم نوجوان لیڈر تھے۔ وہ اس تحریک کے شاید اس لئے حامی تھے کہ خلافت موومنٹ کے دوران کانگریسی علماء نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑ کر افغانستان جاکر رہنے کا کہا تھا جس کی بنیاد پر ہزاروں خاندان اپنے آبائو اجداد کی جائیدادیں اونے پونے داموں بیچ کر افغانستان روانہ ہوگئے۔ محمود خان اچکزئی کو ہسٹری کے وہ صفحات دوبارہ پڑھ لینے چاہئیں جب اُن کے والد اس تحریک کے سپورٹر تھے اور افغانستان کے حامی تھے۔ اُسی افغانستان نے ہندوستان سے آنے والے اِن ہزاروں بے یارو مددگار مسلمانوں پر اپنی سرحد بند کردی تھی اور تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان چھوڑ کر افغانستان جانے والے ہزاروں مسلمان افغانستان نہ پہنچ سکنے کے سبب سنگلاخ پہاڑوں اور خوفناک جنگلوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر راستے میں ہی مرگئے تھے جن میں بیشمار بوڑھے، خواتین اور بچے شامل تھے۔ افغانستان کی برصغیر کے مسلمانوں کے لئے محبت بھری مہمان نوازی کے یہ صفحات محمود خان اچکزئی کو ضرور یاد رکھنے چاہئیں۔ البتہ پاکستان کھلے دل والا صابر اور پُرامن ملک ہے۔ اسے سب پتہ ہے پھر بھی چپ رہتا ہے۔ ڈاکٹر بشیر بدرکے الفاظ میں یوں کہیے کہ:
فاختہ کی مجبوری یہ بھی کہہ نہیں سکتی
کون سانپ رکھتا ہے اُس کے آشیانے میں