سلامتی کونسل: ٹرمپ کے دباؤ پر مصر نے اسرائیل مخالف قرارداد واپس لے لی، ہم پیش کریں گے؛ 4 ممالک کی دھمکی

اقوام متحدہ میں مصر کی جانب سے غربِ اردن میں اسرائیلی بستیوں کی مزاحمت میں مجوزہ قرارداد پر ووٹنگ مصر کی ہی درخواست پر اس وقت ملتوی کر دی گئی جب امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاملے میں مداخلت کی۔ایک امریکی اہلکار نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اس معاملے میں ووٹ ڈالنے سے گریز کرنے پر غور کر رہا تھا جس صورت میں یہ قرارداد منظور ہو جاتی۔ایک اسرائیلی اہلکار نے بر طا نو ی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ اسرائیل نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تھا۔مصری قرارداد میں اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ وہ نئی بستیاں بنانا بند کرے کیونکہ یہ غیر قانونی ہیں۔امریکہ نے کئی بار اقوام متحدہ میں اسرائیل کی حمایت کی اور اسے ایسی مزاحمتی قراردادوں سے بچایا ہے۔ تاہم خیال کیا جا رہا تھا کہ اوباما انتظامیہ اس پالیسی پر عمل نہ کرتے ہوئے اس قرارداد کو منظور ہونے دے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سلامتی کونسل سے کہا تھا کہ وہ اس قرارداد کو روک دیں۔ ’اسرائیلوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن براہِ راست مذاکرات سے آئے گا اقوام متحدہ کی جانب سے لگائی جانے والی شرائط سے نہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’یہ قرارداد اسرائیل کو مذاکرات میں کمزور کرتی ہے اور اسرائیلیوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ادھر مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر بات کی اور ان کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماﺅں نے اتفاق کیا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اس معاملے پر غور کرے گی۔تاہم مصر کی جانب سے قرارداد واپس لینے پر چار دوسرے ممالک نے تنبیہ کی ہے کہ وہ اپنی جانب سے اس قرارداد کو پیش کر سکتے ہیں۔ نیوزی لینڈ، وینزویلا، ملیشیا، اور سینیگال نے کہا ہے کہ وہ اس قرارداد کو پیش کرنے کا اپنا حق برقرار رکھے ہوئے ہیں۔علاوہ ازیں اے این این کے مطابق یہودی شرپسندوں کی جانب سے مسجد اقصی اور حرم قدسی کی مسلسل بے حرمتی کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز 17یہودی شرپسندوں نے قبلہ اول میں داخل ہو کر مذہبی رسومات کی ادائیگی اورعبادت کی آڑ میں مقدس مقام کی بے حرمتی کی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج اور پولیس کی فول پروف سکیورٹی میںیہودی مختلف ٹولیوں کی شکل میںباب السلسلہ اور باب المغاربہ سے مسجد اقصی میں داخل ہوئے۔ واضح رہے گزشتہ ہفتے 33 اسرائیلی فوجی قبلہ اول میں داخل ہوئے۔ یہودی آباد کاروں کے ہمراہ یہودی ربی بھی موجود تھے جوانتہا پسند یہودیوں کو قبلہ اول پر اپنا مذہبی حق جتلانے کے لیے انہیں تلمودی تعلیمات سے آگاہ کرنے کی آڑ میں عالم اسلام کے تیسرے مقدس ترین مقام پر یہودیوں کے قبضے کی مہم چلا رہے تھے۔عینی شاہدین کے مطابق یہودی آبادکاروں کی آمد سے قبل ہی اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصی کے تمام دروازوں بالخصوص مراکشی دروازے کو محاصرے میں رکھا تھا اور فلسطینی نمازیوں کو اس دروازے کی طرف جانے سے سختی سے منع کردیا گیا تھا۔ اس موقع پر یہودی آبادکاروں اور فلسطینی نمازیوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ قابض فورسز نے فلسطینی نمازیوں کو یہودی آباد کاروں سے دور رکھنے کیلئے ان پر لاٹھی چارج کیا۔ادھر اسرائیل کے داخلی سلامتی کے ادارے’شاباک‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پولیس نے صہیونی فوجیوں اور تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں 20 فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ حراست میں لیے گئے تمام فلسطینیوں کا تعلق مزاحمتی تنظیم ’حماس‘ کے ساتھ بتایا جاتا ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ گرفتار چار فلسطینیوں نے مقبوضہ بیت المقدس، حیفا شہر اور دیگر مقامات پر بسوں کے اڈوں پرفدائی حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔دوسری طرف اسرائیل کی سپریم کورٹ نے مقبوضہ بیت المقدس میں رہائش پذیر ایک فلسطینی خاندان کے ملکیتی مکان کو دس سال بعد یہودی آباد کاروں کے حوالے کرنے کا انوکھا فیصلہ صادر کیا ہے۔ اسرائیلی سپریم کورٹ نے فیصلے میں حکم دیا کہ پرانے بیت المقدس میں عقبہ الخالدیہ کے مقام پر واقع فلسطینی شہری احمد صب لبن کے مکان کو دس سال تک ان کی ملکیت میں رکھا جائے گا۔ اس کے بعد یہ مکان یہودی آباد کاروں کو دیا جاسکے گا اور اس میں مقیم فلسطینیوں کو جبرا ًگھر سے نکال دیا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن