جب 1955ء میں PIA قائم کی گئی تو اسکے پاس ٹوٹل 13 ہوائی جہاز تھے۔ اپنے قیام کے اگلے ہی سال پی آئی اے کی پہلی انٹرنیشنل فلائٹ لندن ( براستہ قاہرہ اور روم) پہنچی۔ اگلے چند برسوں میں PIA کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں ہونے لگا۔ معیار اور سہولیات کے علاوہ اس زمانے میں PIA کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کے اس کی نوے فیصد سے زیادہ پروازیں اپنے ٹائم پر اڑتی اور اپنی منزل پر پہنچتی تھیں۔ ماضی کی پی آئی اے ایشیا ء کی پہلی ایئر لائن تھی جس نے ’’جیٹ‘‘ ہوائی جہاز خریدا۔ کئی دہائیوں تک دنیا کی ایئر لائنوں کے لیے روشن مثال بنے رہنے کے بعد نوے کی دہائی میں ہماری قومی ایئر لائن کے انحطاط کا آغاز ہوا اور گزشتہ بیس برس سے آنے والی ہر حکومت کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود اسکی کارگردگی زوال کا شکار ہے۔ PIA کو سال 2011ء میں26 بلین روپے اور 2012ء میں 36 بلین روپے کا نقصان ہوا، اور پھر ہر سال اسکو ہونے والے نقصان میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ سمجھ نہیں آتا کہ ان ہی Routes پر پاکستانی کی نجی ایئر لائنز بھی منافع میں جا رہی ہیں اور انٹرنیشنل ایئر لائنز بھی لیکن PIA کی قسمت میں نقصان ہی نقصان ہے۔ اس مالی نقصان اور آپریشنل جہازوں کی نہایت قلیل تعداد کے مقابلے میں PIA کے ملازمین کی لمبی چوڑی تعداد کو دیکھیں کو سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس ادارے میں اتنے افراد کر کیا رہے ہیں اور کس چیز کی تنخواہ لے رہے ہیں۔ 12 جنوری 2016ء کو PIA کی اپنی پریس ریلیز کے مطابق ہماری اس قومی ایئر لائن میں ملازمین کی تعداد 14771 تھی۔ اطلاع ہے کہ کنٹریکٹ کے لگ بھگ تین ہزار ملازمین اس کے علاوہ ہیں۔ جبکہ اس وقت PIA کے پاس ٹوٹل ٹوٹل38 طیارے ہیں (جن میں سے بہت سے اس وقت ’’آپریشنل‘‘ نہیں ہیں)۔ اسطرح اسوقت پی آئی کے میں فی طیارہ تقریباََ 500 ملازمین ہیں جو اپنی جگہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ اور اگر ہم صرف آپریشنل طیاروں کو مد نظر رکھیں تو فی طیارہ ملازمین کی تعداد 700 کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ اسکے مقابلے میں دنیا کی اکثر ایئر لائنز میں فی جہاز ملازمین کی اوسط تعداد 150 تا 180 ہے۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ہمارے پسنددہ ملک ترکی کی قومی ایئر لائن میں 236 جہاز اور فی جہاز ملازمین کی تعداد صرف 81 ہے۔ ہم نے اس شعبے میں برادر ملک ترکی سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔
اگر معاشیات کو ایک طرف رکھ کر PIA کی پروازوں کے محفوظ ہونے کا جائزہ لیا جائے ، کہ سب سے قیمتی تو انسانی جان ہوتی ہے، تو بھی ہمیں نہایت مایوس کن نتائج ملتے ہیں۔ باوجود اس بات کے کہ PIA بطور ادارہ بضد ہے کہ اسکی پروازیں کسی بھی اور ایئر لائن جتنی محفوظ ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی آجکل ’’کچھ لوگ‘‘ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہماری ایئر لائن دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ایئر لائینوں جتنی بلکہ ان سے زیادہ محفوظ ہے۔ بقول انکے1947ء سے ابتک امریکہ میں ہوائی جہاز کے کل 794 حادثات ہوئے جن میں10639 لوگوں کا انتقال ہوا اور اسکے مقابلے میں پاکستان میں صرف 14 جہاز حادثات کا شکار ہوئے جن میں 920 افراد ہلاک ہوئے۔ نہ جانے انہوں نے یہ(جعلی) اعداد و شمار کہاں بیٹھ کر تیار کیے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ PIA کا ادارہ 1955میں قائم ہوا تھا 1947 میں نہیں۔ دوسرا یہ کہ امریکہ کی ایئر لائنز کے ساتھPIA کا اس طرح کا مقابلہ کرنا ہی مضحکہ خیز ہے۔ پی آئی اے کے پاس اس وقت کل 38 جہاز ہیں جن میں تمام کے تمام آپریشنل نہیں ہیں اور پی آئی اے 22 ملکی اور 28 بین الوقوامی پروازوں کے ساتھ کل 3000سے بھی کم پروازیں آپریٹ کر رہی ہے جب کہ امریکہ کی ’’امریکن ایئر لائن‘‘ کے پاس 952، ’’ڈیلٹا ایئر لائن کے پاس 800، یونائیٹڈ ایئر لائن کے پاس 852جہاز ہیں اور یہ ایئر لائنز بلا مبالغہ لاکھوں پروازیں آپریٹ کر رہی ہیں۔ علاوہ ازیں کیا صرف ایسے حادثات دیکھنا ضروری ہے جن میں جہاز تباہ ہو گیا؟ کیا ایسے واقعات اہم نہیں ہیں جن میں جہاز تباہ ہو سکتا تھا لیکن قسمت سے بچ گیا؟ اگر ایک آدمی بہت رف ڈرائیونگ کرتا ہے ، یہاں سائڈ مارتا ہے، وہاں سگنل توڑتا ہے۔ کبھی اسکی گاڑی کی بریک فیل ہو جاتی ہے اور کبھی انجن سیز ، لیکن پھر بھی قسمت اسے کسی بڑے حادثے سے بچائے رکھتی ہے توہم کسی طور بھی اسے ایک ماہر یا محفوظ ڈرائیور نہیں کہہ سکتے۔ اگر ہم صرف رواں برس کے دوران PIA کی پروازوں میں پیش آنے والے ایسے واقعات کو دیکھیں جن میں جہاز صرف اور صرف قسمت کی بنا پر بچ گئے وگرنہ ان کی نوعیت ایسی تھی کہ یہ کسی بڑے سانحے میں تبدیل ہو سکتے تھے تو ان کی تعداد کسی کو بھی خوفزدہ کر دیتی ہے۔ اپریل 11کو کراچی سے کولالمپور جاتے ہوئے PIA کی فلائٹ PK894 کی ایئر بس کے فلیپ سسٹم میں خرابی پیدا ہو گئی۔ 23اپریل کو فلائٹ PK711، 30مئی کو جدہ جانے والی فلائٹ PK741 کا کمپیوٹر سسٹم جواب دے گیا۔20 جون کو اسلام آباد سے لاہور آنیوالی (ایئر بس) فلائٹPK853 کے انجن میں دوران پرواز خرابی پیدا ہو گئی۔ 11 اکتوبر کو کراچی سے اسلام آباد آنیوالی فلائٹ PK300 کے کیبن پریشر اور 8 اگست کو فلائٹ PK-451 کا ہائیڈرالک سسٹم فیل ہو گیا۔ 11 نومبر کو ریاض جانیوالی فلائٹ PK760 کے کیبن کا پریشر ختم ہو گیا۔ یہ رواں برس کی چند مثالیں ہیں ورنہ مکمل فہرست اس سے زیادہ طویل ہے۔
ایئر لائنز کے جہازوں کی تعداد اور پروازوں کی تعداد کے فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ دیکھنے کے لیے کہ کون سی ایئر لائن کتنی محفوظ ہے جو اصطلاح استعمال ہوتی ہے اسے ’’اویلیبل سیٹ کلومیٹر‘‘ (ASK) کہتے ہیں۔ اس کیلئے کسی بھی ایئر ل لائن کے جہازوں میں سیٹوں کی کل تعداد کو اس ایئر لائن کے کی تمام پروازوں کے کے طے شدہ کلومیٹروں سے تقسیم کیا جاتاہے ۔ اس سلسلے میں سائنسی بنیادوں پر ایک اہم اور بڑی بین الا قوامی ’’سٹڈی‘‘ امریکہ کے اعداد و شمار کے مشہور سائنسدان Nate Silver نے 2014 میں کی تھی جس میں دنیا کی تمام ایئر لاینز کے حادثات کا مطالعہ دو ادوار یعنی 1985 تا 1999 اور 1999 تا 2014 کیا۔ اس مطالعہ کے مطابق ان دونوں ادوار میں ایتھوپین ایئر لائن اور PIA دنیا کی غیر محفوظ ترین ایئر لائنز قرار پائی تھیں۔ اس سب کے باوجود ہم کمال ڈھٹائی کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ سب ٹھیک اور بین الا قوامی معیار کا ہے؟
اگر ہم PIA کی پہلی شان و شوکت بحال کرنا چاہتے ہیں تو سب سے اہم یہ ہے کہ ہم ’’سب اچھا ہے‘‘ کا راگ الاپنے کی بجائے اس ادارے میں موجود خرابیوں اور کوتاہیوں کو شناخت بھی کریں اور تسلیم بھی اور پھر ان کو دور کرنے کیلئے جلد از جلد اور ’’ میرٹ‘‘ پر اقدامات کریں ۔ غلطیوں کوشناخت اور تسلیم کئے بغیر انکو درست کرنے کی بات اور امید کرنا پہلے سے موجود غلطیوں سے بڑی غلطی ہوتی ہے۔