’’مجھے کیوں نہیں نکالا ‘‘ کے بعد پیش خدمت ہے ’’ اسے کیوں نہیں نکالا‘‘۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری جہانگیر ترین کو نااہل کر دیا ہے جبکہ عمران خان کی نااہلی کی درخواست مسترد کر دی گئی ۔نواز شریف کو نااہل کیوں کیا گیا اور عمران خان کو نا اہل کیوں نہیں کیا گیا؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔
کیونکہ نواز شریف کے اند روہ صلاحیتیں اور وہ جرأت نہیں ہے جو عمران خان کے اندر ہے۔ نواز شریف کی ذات میں معمولی سا مذہبی تشخص ضرورتھااگرچہ وہ رائی کے دانے کے برابر تھا۔ لیکن عمران خان میں رائی کے دانے کے برابر بلکہ اس کا عشر عشیر بھی اسلام سے وفاداری کا عنصر نہیں ہے۔ عمران خان مکمل طور پر لبرل اور آزاد خیال ہیں ۔ نواز شریف کو اگر چہ تیسری مرتبہ بھی اس لیے لایا گیا تھا کہ وہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے اور اسلام کا تشخص کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ اس کام کے لیے انہوں نے بڑی کوششیں کیں۔ مذہبی رواداری کی آڑ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں میں فرق ختم کرنے کی کوشش کی لیکن نواز شریف کو وہ کامیابی نہیں مل سکی جس کی توقع امریکی آقاؤں نے رکھی تھی۔ حال ہی میں ختم نبوت کے حلف نامہ میں تبدیلی کی کوشش بھی ناکام ہوگئی۔ پاکستان کی باگ ڈور تھامنے والے ن لیگ کو کا فی مرتبہ آزماچکے ہیں اب وہ کسی اور کو اپنا مہرہ بناکر اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ حالات یہ بتاتے ہیں کہ اب یہ کام عمران خان سے لیا جائے گا۔ ان لوگوں کی سب پہلی کوشش یہ ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے والے قانون کو ختم کیا جائے۔ عمران خان نے جب کرکٹ کو خیر باد کہہ کر سیاسی جماعت کی بنائی تو ووٹ بینک بڑھانے کے لیے قادیانیوں کے موجودہ خلیفہ مرزا مسرور احمد کے پاس گئے اور ان سے اپنی جماعت کی حمایت کی درخواست کی اور اسے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اگر ہم حکومت میں آگئے تو آپ کے خلاف بنے ہوئے قانون کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن مرزا مسرور قادیانی نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تم کچھ کام کرکے دکھاؤ پھر ہم تمہاری سیاسی جماعت کو سپورٹ کریں گے کیونکہ ہم پہلے بھی دھوکہ کھاچکے ہیں ، ہم نے پہلے بھی ذوالفقار علی بھٹو کو ووٹ دیے تھے لیکن اسی نے ہمیں غیر مسلم اقلیت قراردلوادیا۔ یہ پوری گفتگو ڈھکی چھپی نہیں ہے بلکہ سوشل میڈیا پر موجود ہے۔
یہ سب جانتے ہیں کہ عمومی طور پر کوئی بھی سیاستدان دودھ کا دھلا ہوا نہیں ہوتا ۔ اس کے باوجود عمران خان کو صادق اور امین کہا گیا اور نااہلی سے بچالیا گیا۔ بہرحال عدالت کے حالیہ فیصلے سے ظاہر ہوچکا ہے کہ پاکستان میں مستقبل میں کیا ہونے جارہا ہے۔ پاکستان سے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا سازشیں کی جارہی ہیں۔ ہر آنے والا زمانہ گذشتہ زمانے سے بد تر ہوتا جارہا ہے۔ ہر آنے والے زمانے میں ایسا حکمران مسلط کیا جا رہا ہے جو پچھلے والے کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ اسلامی تشخص کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے ۔ ایسے موقع پر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت کا مفہوم یاد آتا ہے کہ آئندہ جو بھی زمانہ آئے گا وہ گذشتہ زمانے سے بد تر ہوگا۔ اللہ رحم کرے۔ بہر حال ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔یہ ان کی چالیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اپنی خفیہ تدبیر یں ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی ہر چال میں کامیاب ہوں۔ ہمیں اپنے تئیں اسلام اورپاکستا ن کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے ۔