خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

ایک مسلمان کے لئے قرآن مجید کتاب ہدایت ونصیحت و حکمت ہے۔لائحہ عمل ہے۔منشور و دستور زندگی ہے۔قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے کہ ہم نے اسے عربی زبان میں آسان بناکر بھیجا تاکہ اسے سمجھو اور اس پر عمل کرو۔چونکہ پیغمبر اسلام پر قرآن مجید نازل ہوا اور اس کے مخاطب اہل مکہ و مدینہ تھے ان کی زبان عربی تھی اس لئے ان ہی سے براہ راست خطاب الہیہ کا ہونا فطری امر تھا۔ لیکن قرآن مجید کے مخاطبین تا ابد عالم انسانیت ہے کیونکہ یہ آخری پیغام ربانی ہے۔قرآن مجید کی تین منازل ہیں۔قرآن خوانی،قرآن فہمی اور قرآن تحمیلی ۔پہلی منزل پر مسلمان قرآن مجید پڑھتے ہیں۔اکثریت برائے ثواب پڑھتی ہے۔اہل عرب کی چونکہ عربی مادری زبان ہے اس لئے انہیں پڑھنے میں آسانی ہے جبکہ غیر عرب مسلمان بچپن میں مساجد میں جاکر مولوی ساحبان سے ناظرہ کی منزلیں سال ہا سال کی ریاضت کے بعد طے کرتے ہیں۔یہ عربی سے نابلد ہیں لٰہذا ناظرہ پڑھتے وقت مطالب قرآن سے نابلد رہتے ہیں۔ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں تاکہ تفہیم قرآن ہو۔غیر عرب مسلمانوں کی تقریباً 90 فی صد قرآن خواں آبادی قرآن مجید کو سمجھنے سے قاصر ہے۔تیسری منزل احکامات قرآن پر عمل کرنے کی ہے۔قرآن خوانی برائے ایصال ثواب کے بعد تفہیم قرآن اور پھر عمل پر احکامات قرآن کی منزل ہے۔سورۃ القمر میں قوم نوح ‘ قوم ثمود اور قوم موسٰی کا ذکر ہے۔قوم نوح عذاب طوفان اورقوم ثمودکو چگھاڑنے گھیر لیا۔قوم لوط پر فاسفورسی پتھروں کی بارش ہوئی اور انہیں جلا کر بھسم کردیا گیا۔قرآن مجید میں ان اقوام کی سرکشی اور بداعمالی کی بدولت ان پر عذاب الہی کا ذکر ہے مگر ہر ذکر کے ساتھ ساتھ ارشاد ربانی ہے۔’’اور بے شک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟‘‘کیا یہ سورۃ القمر کی آیت آج بھی ہمیں پکار پکار کر دعوت فکر و عمل نہیں دے رہی۔قرآن پاک کے احکامات پر عمل کرنے کی بجائے ہم نے اسے ’’کتاب مناظرہ‘‘بنادیا ہے۔ہر مسلمان خیر و شر اور حلال و حرام سے باخبر ہے لیکن’’حامل قرآن‘‘ہوکر بھی ’’عامل قرآن‘‘نہیں ہے ۔افسوس ہم نے کتاب حکمت و ہدایت کو کتاب جادو بنا دیا ہے۔اسلام دین امن و انسانیت ہے۔فتنہ و فساد کار شیطانی ہے۔جنگ و جدال اور قتل و قتال کی قرآن مجید نے ممانعت و مذمت کی ہے۔حدیث رسولؐ کی روشنی میں میدان جنگ میں اگر دشمن ہتھیار پھینک دے تو امان کا مستحق ہوتا ہے۔غیر مسلموں پر حملہ آور ہونا اور جارحیت کرنا منشور قرآن نہیں۔باہمی معاملات و تنازعات کو احسن طریقے سے حل کرنے کا حکم ہے۔مکالمہ بنیاد امن اور مجادلہ بنیاد فساد ہے۔اگر دو مسلمان گروہوں میں جنگ چھڑ جائے تو اس کے بارے میں سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 9 میں ارشاد ربانی ہے’’اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں تو ان کے درمیان صلح کرادیا کرو۔پھر اگر ان میں ایک (گروہ)دوسرے پر زیادتی اور سرکشی کرے تو اس(گروہ)سے لڑو جو زیادتی کا مرتکب ہورہا ہے‘‘۔عراق کے صدر صدام حسین نے امریکی اشارے پر ایران پر حملہ کردیا۔انقلاب اسلامی ایران کو ناکام کرنے کے لئے امریکہ کے ساتھ کچھ دیگر عرب ممالک نے عراق کی امداد کی۔اس جنگ تحمیلی کی دو وجوہات تھیں۔امریکہ اور اسرائیل کو خدشہ تھا کہ امام ضمینی اسرائیل دشمن ہیں اور اگر ایران میں اسلامی انقلاب مستحکم ہوگا تو فلسطینیوں کو ایران اسرائیل کے خلاف امداد کرے گا لٰہذا امریکہ اور اسرائیل نے ایرانی انقلاب اسلامی کو ناکام کرنے کے لئے صدام حسین کو اکسایا اور ایران پر حملہ کروایا۔قرآن مجید میں سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 10 میں ارشاد ربانی ہے ’’ بے شک مومنین بھائی بھائی ہیں سوتم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔کیا مسلمان ممالک نے ایران و عراق کے درمیان صلح کروائی۔حکیم قرآن تو یہ ہے کہ جارح ملک کے خلاف متحد ہوجاؤ اور اس کے خلاف جنگ کرو جبکہ عرب اسلامی ممالک نے جارح عراق کے خلاف جنگ تو نہ کی بلکہ حکم قرآن کے عین خلاف جارح عراق کی امریکہ کے ایماء پر مدد کی۔

امام خمینی نے اعلان کیا کہ انقلاب ایران مسلکی انقلاب نہیں بلکہ اسلامی انقلاب ہے ۔شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں۔دو مسلک ہیں۔لیکن جمہوریت سے خائف ملکوک کا مفاد اسی میں تھا کہ ایران انقلاب کو مسلکی انقلاب کا رنگ دیا جائے۔آج پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل نوازی میںسعودی عرب کو ساتھ ملا کر ایران کے خلاف مسلکی جنگ کا ماحول پیدا کررہا ہے۔او آئی سی ممالک فوراً اس سازش کو ناکام کرنے کے لئے لائحہ عمل مرتب کریں بصورت دیگر ایران اور سعودی عرب تباہ و برباد ہوجائیں گے اور یہی استعمار کی خواہش ہے۔ایک موقر جریدہ میں منور راجپوت کا مضمون’’اب کوئی بھوکا نہ سوئے‘‘نظر نواز ہوا۔انہوں نے کراچی،لاہور اور اسلام آباد میں چند فلاحی تنظیموں کا ذکر کیا ہے جو غرباء و مساکین کی حسب توفیق خدمت بجالاتے ہیں اور عوامی دستر خوان سجاتے ہیں۔یہ لوگ ننگ انسانیت ہیں۔لاہور کی محترمہ رخسانہ اظہار،سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کراچی کا قائم کردہ روٹی بینک ،محترمہ پروین سعید کا ’’کھانا گھر‘‘اور منیبہ مزاری کا اسلام آباد میں عوامی لنگر،لاہور کی ئمز یونیورسٹی کے نوجوانوں کا قائم کردہ ادارہ’’رزق‘‘اور ’’رابن ہڈ آرمی‘‘کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔برصغیر میں اولیاء اﷲ جہان ’’تبلیغ اسلام‘‘کرتے تھے وہاں ’’لنگر‘‘کا بھی انتظام کرتے تھے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔میں نے لاہور میں داتا دربار اور اسلام آباد میں حضرت عبداللطیف بری امام کے مزار پر دیکھا کہ ہزاروں لوگ نذر نیاز دیتے ہیں۔دیگیں پکتی ہیں اور غریب لوگ چاول کھاتے ہیں۔
حدیث رسولؐ ہے کہ مجھے خوف ہے کہ غربت لوگوں کو کفر کی منزل پر نہ لے آئے۔اسلام میں سماجی و معاشی مساوات و انصاف کی خاص تلقین کی گئی ہے۔کارل مارکس نے ’’روٹی‘‘کو ایک نظریہ اور فلسفہ بنادیا اور اشتراکیت کی بنیاد رکھی۔اس نظریہ پر روس اور چین جیسی ریاستیں وجود پذیر ہوئیں۔امریکہ اور یورپ سرمایہ دارانہ نظام پر قائم ہیں لیکن وہاں بھی فلاحی ریاستوں کا نظریہ ان کا عقیدہ معاشرت ہے۔معذوروں اور بے روزگاروں کو ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔سکینڈ دین ممالک ناروے،سویڈن اور ڈنمارک بہترین فلاحی ریاستیں ہیں۔افسوس صد افسوس مسلمان رجعت پرستی کا شکار ہیں۔نہ آزادی ہے۔نہ انصاف ہے اور نہ ہی ’’روٹی‘‘کو کوئی مساویانہ و منصفانہ نظام ہے۔اسلام کا استحصال ہے اور ہر انسان بدحال ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری

ای پیپر دی نیشن