نیویارک (نیٹ نیوز) سب سے زیادہ امریکی امداد وصول کرنے والے 12 ملکوں کی فہرست میں اسرائیل کے علاوہ ایک بھی ملک ایسا نہیں جس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بدھ کو یروشلم کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف پیش ہونے والی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا ہو۔ امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے کانگریس کو سال 2018ء کے بجٹ کیلئے بین الاقوامی امداد کے بارے میں جو درخواست دی گئی ہے‘ اس کے تحت اسرائیل بدستور امریکی امداد وصول کرنے والے ملکوں کی فہرست میں اول نمبر پر ہے۔ اسرائیل کے بعد اسلامی ملکوں میں سب سے زیادہ امداد مصر کو دی جاتی ہے جو اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی قرارداد کا محرک بھی تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یروشلم کے بارے میں قرارداد پیش ہونے سے قبل امریکی سفیر نکی ہیلی نے اقوام متحدہ کے 193 ملکوں میں سے ایک سو اسی ملکوں کو خطوط ارسال کئے تھے جس میں اس قرارداد کے حق میں ووٹ دینے سے گریز کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ نکی ہیلی کی طرف سے سفارتی آداب سے ہٹ کر دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے یہ بات کہی گئی تھی کہ جو ملک امریکی امداد وصول کرتے ہیں‘ ان کی طرف سے قرارداد کے حق میں ووٹ دیئے جانے کی صورت میں امداد پر نظرثانی بھی کی جا سکتی ہے۔ امریکہ کی طرف سے دی جانے والی دھمکی کتنی کارگر ثابت ہوئی اور کون سے ایسے ممالک ہیں جن پر امریکی دھمکی کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 35 ملک جنہوں نے مذکورہ قرارداد پر ہونے والی رائے شماری میں شرکت نہیں کی‘ ان میں صرف یوگنڈا ایسا ملک ہے جو سب سے زیادہ امریکی امداد وصول کرنے والے ملکوں کی فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ کینیا اور زیمبیا بھی امداد وصول کرنے والے ملکوں میں ہیں اور یہ دونوں ملک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس اہم اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے۔
امریکی دھمکی بے سود: اسرائیل کے سوا سب سے زیادہ امداد لینے والے ملکوں میں سے کسی نے جنرل اسمبلی میں حمایت نہ کی: بی بی سی
Dec 23, 2017