اب ایسے نہیں چلے گا

سفر بھی دلچسپ چیز ہے۔ سڑک پر دوڑتی گاڑیاں اور مستقلاً وقت کے بہاؤ میں پیچھے رہ جانے والی اونچی عمارتیں، کچے گھروندے، ہرے بھرے کھیت اور دکانیں نہ جانے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں۔ بہت سی وہ اشیا جن پر ہم کبھی غور ہی نہیں کرتے، ایسے ایسے خیالات کو جنم دیتی چلی جاتی ہیں کہ ’’کبھی ہم ان کو کبھی اپنے سر کو پھوڑتے ہیں‘‘۔ 

اس بار عارف والا سے واپسی پر اپنے ایک دوست کے ساتھ محوِ سفر تھا اور اپنے خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ اس نے میرے سلسلہ خیال کو توڑتے ہوئے خاموشی کی برف پگھلائی۔ ’’ڈاکٹر صاحب! ذرہ غور تو کیجیے، یہاں کبھی دور دور تک کھیت ہی کھیت تھے اور اب کیسی کیسی دکانیں کھُل گئی ہیں۔‘‘وہ شاید بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے ثمرات پر گفتگو کرنا چاہ رہا تھا لیکن اس کے اچانک جاری ہونے والے جملے کی لیزر لائٹ کی روشنی میں میری نظر سڑک کے بائیں طرف موجود ’’نیو اکبر ہوٹل‘‘ پر پڑی اور میری سوچ کا کانٹا بدل گیا۔ میں بولا: ’’بات تو تمھاری ٹھیک ہے لیکن یہ ’نیو اکبر ہوٹل‘ تو اُس معروف ’اکبر ہوٹل‘ کا ہی کوئی بدلا ہوا چہرہ نہیں جہاں ہم بچپن میں لاہور جاتے وقت رکا کرتے تھے؟‘‘ وہ بولا: ’’ممکن ہے ایسا ہی ہو، لیکن اس میں کیا بڑی بات ہے؟ ہمارے یہاں آج کل یہی رواج ہے کہ کسی معروف سکول، کالج، کمپنی یا دکان کی شہرت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہم اس سے پہلے ’نیو‘ لگا کر دیے سے دیا جلا لیتے ہیں اور بعض اوقات تو ہمارا دیا پچھلے سے کہیں زیادہ روشن تر بھی ہو جاتا ہے ڈاکٹر صاحب!‘‘ مجھے احساس ہوا کہ ہم سفر تو اکٹھے کر رہے تھے لیکن ہمارے خیالات کی پرواز ایک دوسرے سے کہیں مختلف تھی۔ میں نے کہا: ’’یار! تم ٹھہرے ایک کٹر کار و باری اور میں بے چارہ سیاست دان۔ وہ سیاست دان جو ہر بات کو ملکی اور سیاسی منظر نامے میں دیکھنے کا قائل ہو چکا ہے۔ اس ’نیو اکبر ہوٹل‘ کو دیکھ کر تمھارے جی میں نہ جانے کیا آیا لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ پرانے برتنوں کو نیا روغن چڑھا کر یا اپنی مصنوعات کی بِکری بڑھانے کے لیے انھیں کسی پرانے نام میں معمولی اضافے سے بازار میں اچھال دینے کا رواج تمھاری کار و باری دنیا میں ہی نہیں ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ بھی ایسی بہت سی جگاڑوں سے بھری پڑی ہے۔ ستتر کے مارشل لاء کے بعد پیپلز پارٹی کی طاقت پگھلانے کے لیے کبھی مساوات پارٹی بنائی گئی اور کبھی نیشنل پیپلز پارٹی کی چھتری بنا کر پرانے فن کاروں کو نیا کردار سونپ دیا گیا لیکن بھٹو کا جادو اب بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے اور ان کا نعرہ نہ دبایا جا سکا۔ ان غیبی ہاتھوں نے کیسی کیسی کٹھ پتلیاں بنائی ہیں۔ کبھی مذہب کا سہارا لیا گیا اور کبھی علاقائیت کا۔ اور اگر کچھ اور نہ بن سکا تو جماعتوں کے بطن سے نئی جماعتیں ہی بنا ڈالیں۔ان کی فیکٹریوں میں کیا نہیں ہوتا!!! اسّی کی دہائی میں کراچی سے پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کا زور توڑنے کی ٹھانی تو MQM بنا لی اور گزشتہ برسوں میں لندن والے منہ زور ہوئے تو MQM نے بچے جننا شروع کر دیے۔ مشرف کے سر پر اقتدار کا بھوت سوار ہوا تو مسلم لیگ ق بن گئی۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی کو کمزور کرنے کی ضرورت پڑی تو ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے سے عاجز صاحبانِ ریش کو ایک ہنڈیا میں ابال کر ایم ایم اے بنا لی گئی۔ ایک کے بعد ایک نئی جگاڑ!! پردے کے پیچھے ایسے ایسے ڈرائی کلینر بیٹھے ہیں جو کپڑے تو کیا کالے سیمنٹ کو سفید کرنے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔ تم خود سوچو! آج بھی یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ پچھلے چھ مہینوں میں ہماری سیاسی جماعتوں میں نئی گروہ بندیاں اور ’بابے رحمتے‘ کے فیصلے!!! نِت نئی جگاڑ نہیں تو اور کیا ہیں؟ اے کاش!!! کوئی تو ہو جو انھیں سمجھائے کہ ’اکبر ہوٹل‘ کو ’نیو اکبر ہوٹل‘ بنا لینے اور ’حافظ سویٹس‘ کے نام میں تھوڑی بہت اکھاڑ پچھاڑ کر لینے سے بات نہیں بنتی۔ بیرونی مسالوں کی ملاوٹ سے خواہ کیسے ہی چینی، اطالوی اور تھائی ڈشز بنا لی جائیں، ’’میاں جی کی دال کا اصل لطف دو بارہ زندہ نہیں کیا جا سکتا۔ جگاڑ، جگاڑ ہی ہوتی ہے اور میرا ملک اب مزید جگاڑوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔آج تک ان کی کوئی چال ایسی بھی ہے جو کامیاب ہوئی ہو؟ نقل ، نقل ہی ہوتی ہے اور کبھی اصل کا متبادل نہیں ہو سکتی۔‘‘
ساتھ کی نشست پر بیٹھا میرا دوست مسکرایا اور بولا: ’’ڈاکٹر صاحب! آپ تو اصلی سیاست دان ہو گئے ہیں۔ آپ نے تو چھوٹی سی بات پر اچھی خاصی تقریر ہی جھاڑ ڈالی۔میں آپ کی حالیہ کیفیت سمجھ سکتا ہوں اور آپ کی تشویش میں برابر کا شریک ہوں لیکن جان کی امان پاؤں تو عرض یہ ہے کہ آپ کچھ جگاڑوں کا ذکر بھول گئے۔ یا شاید وہ آپ کو سُوٹ نہیں کرتی تھیں۔ یاد کیجیے آپ کی بیان کردہ جگاڑوں کی طرح ایک جگاڑ 1985ء میں بھی لگائی گئی تھی، جب بڑے میاں صاحب کو میدان میں اتارا گیا تھا! اس کے متعلق بھی تو کچھ ارشاد فرمائیے!‘‘
میرا دوست شائد میری جذباتی کیفیت سے لطف اندوز ہو رہا تھا لیکن وہ یہ بھول گیا تھا کہ ہر غیر معمولی فیصلہ جگاڑ نہیں ہوتا۔ بسا اوقات خلا پُر کرنے کے لیے دھکّا لگانا پڑتا ہے۔ دل کی دھڑکنیں رکنے لگیں تو پیس میکر کی مدد سے انھیں بحال کیا جا سکتا ہے۔ 1985ء میں ہونے والے فیصلے نے ہماری ملکی تاریخ پر جو ناقابلِ فراموش نقوش مرتب کیے ان کی شناخت کے لیے کسی محدب عدسے کی ضرورت نہیں۔ ملکی تاریخ میں رو نما ہونے والا صنعتی انقلاب ہو، وطنِ عزیز کی پہلی موٹر وے جیسے کرشمہ ساز منصوبے ہوں یا 1998ء کے تاریخ ساز جوہری دھماکے، 2008ء سے 2013ء میں پنجاب حکومت کی مثالی کار کردگی ہو یا گزشتہ چار برسوں میں بجلی کے میگا پراجیکٹس، دہشت گردی کا مقابلہ ہو یا سی پَیک جیسا بے مثل منصوبہ، یہ سب اُسی تاریخ ساز فیصلے کے ثمرات ہیں جو میرے دوست کے قریب کوئی جگاڑ تھی۔
حکومتی مدح سرائی قطعاً میرا مطمع نظر نہیں۔ کہنا صرف یہ مقصود ہے کہ بہت ہو چکا۔ دھرنا سازوں سے دھرنا بازوں اور کہانی گیروں سے خاکی پِیروں تک سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ شعبدہ بازی کئی بار مہنگی بھی پڑ جایا کرتی ہے۔ خدا، خدا کر کے جمہوریت کی جڑیں ہماری دھرتی میں اس حد تک گہری ہو پائی ہیں کہ جیسی تیسی بھی سہی، گزشتہ حکومت نے پانچ سال پورے کر لیے تھے۔ خدارا! اسے پنپنے دیجیے۔ بادشاہ گروںکی چالیں الٹی پڑ گئیں تو ایسانہ ہو جو عرب بہار کے نتیجے میں ہوا۔ہر وہ ملک جہاں اس لہو رنگ بہار نے پنجے جمائے وہاں کے ہر پھول سے آج بھی خون رِس رہا ہے۔ میں خود اس نحیف و نزار جمہوریت کا کوئی زیادہ قائل نہیں ہوں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جمہور کی آواز کو دبانا اب کسی کے بس میں نہیں رہا۔ نہ یہ ساٹھ کی دہائی ہے اور نہ ستّر کا دور۔ گزشتہ آمر کی مہربانی سے میڈیا آزاد ہے اور سوشل میڈیا تو بہت ہی آزاد ہے۔ اس لیے اب عوام کو بُدھو بنانا ممکن نہیں۔ وہ ’اکبر ہوٹل‘ اور ’نیو اکبر ہوٹل‘ کا فرق خوب جانتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن