توہین رسالت بھی دہشت گردی‘ جھوٹا الزام لگانے والا دوہرے جرم کا مرتکب ہوتا ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ نے انٹرنیٹ پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے الزام میں مقدمے کا سامنا کرنے والے 13میں سے پانچ بلاگرز کیخلاف عدم شواہد پر مزید کارروائی نہ کرنے کی ہدایت کی ہے ایف آئی اے نے بیرون ملک فرار چار بلاگرز کو تحویل میں لینے کے لیے انٹرپول سے رابطہ کرلیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے تحریری حکم نامے میں بھی کہا گیا ہے کہ سیکرٹری اطلاعات تمام ٹی وی چینلز کو آگاہ کریں کہ پبلک سروس میسج کے لیے ایئر ٹائم مختص نہ کرنے والوں کے اشتہارات بند کر دیئے جائیں گے۔ عدالت عالیہ نے توہین رسالت کے مقدمات میں جھوٹی تہمت لگانے والوں پر بھی 295سی کے تحت مقدمہ درج کرنے کی دفعات انسداد الیکٹرانک تدارک بل 2016 میں شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے ایف آئی اے، پی ٹی اے اور وزارت داخلہ سے مذکورہ کیس پرعمل درآمد کی رپورٹ 15جنوری تک طلب کی ہے مقدمے کی سماعت 25 جنوری تک ملتوی کردی گئی ہے۔ عدالتی حکم پر ڈی جی ایف آئی اے اور اسپیشل سیکرٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے۔ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے انکشاف کیا کہ سائبر کرائم سے متعلق بارہ ہزار سے زائد شکایت آئی ہیں اور ہمارے پاس صرف پندرہ تفتیشی افسر ہیں۔ ایف آئی اے کی طرف سے عدالت کو بتایا کہ گرفتار چار ملزموں سے تفتیش مکمل کرکے چالان ٹرائل کورٹ میں پیش کردیا ہے جبکہ بیرون ملک فرار ہونے والے دیگر چار ملزموں کی گرفتاری کیلئے انٹرپول سے رابطہ کرلیا گیا۔ پٹیشن میں جن پانچ افراد پر الزام لگایا گیا ان کے خلاف شواہد نہیں ملے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ جن کے خلاف شواہد نہیں ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والا دوہرے جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل افنان کریم کنڈی نے انسداد الیکٹرانک کرائم بل کا ترمیمی مسودہ عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ توہین آمیز اور غیر اخلاقی مواد سے متعلق ترمیم شامل کرلی گئی ہے۔ مسودے کی منظوری کیلئے چھبیس دسمبر کو متوقع کابینہ اجلاس کے ایجنڈا میں بھی شامل کرلیا گیا ہے۔ عدالت نے وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو مل کر ورکنگ پیپر تیار کرنے کا حکم دیا اور این جی اوز کے خلاف عدالتی فیصلے کے بعد سے اب تک ہونے والی کارروائی کی رپورٹ بھی طلب کرلی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ توہین رسالت بھی دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل میاں عبدالرئوف سے استفسار کیا کہ توہین رسالت کا مرتکب ہونے والے کی کیا سزا ہے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کوبتایا کہ اس جرم پر 295 سی کا اطلاق ہوتا ہے جس کی سزا موت ہے۔ فاضل جسٹس نے استفسارکیا کہ اگر یہ الزام ثابت نہ ہو تو تہمت لگانے والے کی کیا سزا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ شکایت کنندہ کے خلاف 182کی کارروائی ہو گی جس میں اسے سات سال سزا ہو گی۔ اس پر فاضل جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹی تہمت لگانے والا بھی توہین رسالت کا مرتکب ہوتا ہے اس پر بھی 295 سی لگنی چاہیے۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ اس شق کو قانون میں شامل کروائیں یہ اس ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور معاشرے میں توازن پیدا کرے گا۔ فاضل جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ قانون میں ترمیم عدالتی فیصلے کی روشنی میں کی جائیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ آئین پاکستان پر اگر اس کی روح کے مطابق عمل کیاجائے تو پاکستان صیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بن جائے فاضل عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو تمام وسائل فراہم کئے جائیں۔ عدالت نے وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو مل کر رپورٹس تیار کرکے 15 جنوری تک پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...