قائد اعظم کی معاشی ترجیحات

Dec 23, 2017

شیخ منظر عالم

جو قومیں یا معاشرے اپنے محسنوں یا محسنوں کے فرمودات کو فراموش کردیتے ہیں تو تاریخ بھی انکو تاریکی میں دھکیل دیتی ہے مگر جو لوگ اپنے محسنوں اور محسنوں کی خدمات و نظریات کو یاد رکھتے ہیں وہ تاریخ میں انمول مقام حاصل کرتے ہیں جیسا کہ چین کے ماوزے تنگ ہوں، ونیزویلا کے ہیوگو شاویز ہوں، سنگاپور کے جنرل لی ہوں یا ملائیشیاء کے مہاتیر محمد ہوں ان کی قوموں نے انکے افکار ونظریات زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل پیرا بھی رہیں تو آج وہ دنیا کے افق پر ترقی یافتہ اور معاشی طاقتیں بن گئی ہیں مگر ہم نے اپنے محسنوں کے ساتھ تو کیا کرنا تھا محسنوں کے قائد حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات و نظریات کو صرف کتابوں میں ہی محفوظ کرکے رکھ دیا تو آج ہمارے معاشرے اور ملک کا حال سب کے سامنے ہے۔ حالانکہ اپنے تو اپنے غیر ملکی مفکر و دانشور بھی قائد اعظم کی بصیرت اور فراست کی تعریف کئے بغیر نہیں رہے۔ جیسا کہ امریکی مفکر سٹینلے والپرٹ کا 1982میں قائداعظم کی سوانح حیات کے بارے میں لکھی گئی کتاب ’’جناح آف پاکستان‘‘ میں کہنا ہے کہ ’’دنیا کی تاریخ میں چند افراد تاریخ کو موڑ پاتے ہیں، چند افراد دنیا کا نقشہ تبدیل کر پاتے ہیں، مشکل سے کوئی ایک قومی ریاست کی تشکیل کر پاتا ہے مگر محمد علی جناح نے یہ تینوں کام سرانجام دئیے۔ اس سے قائداعظم کی عظیم فہم وفراست اوربلند افکار ونظریات کا اندازہ ہوتا ہے کہ قائداعظم جو ایک طرف انگریزوں کی عیاریوں، دوسری طرف ہندئوں کی شاطرانہ چالوں اور تیسری طرف اپنوں کی منافقتوں کا تن تنہا مقابلہ کرتے ہوئے ٹی بی جیسی اس وقت کی مہلک و جان لیوا بیماری گلے لگا لی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی مگر برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک ایسی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کا مقصد صرف اور صرف ایک فلاحی اسلامی معاشی ریاست کا قیام تھا۔ آج میرا موضوع قائداعظم کے معاشی نظریات ہی ہے اور پاکستان کے لئے قائداعظم کی معاشی ترجیحات کیا تھیں؟ اس کا اندازہ قائداعظم کے انیس اگست 1947کے ایک عشائیے میں خطاب کے چند جملوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا ’’ہم نے عوام الناس کے غربت کے مسائل کو حل کرنا ہے، میں اس بات کا قائل نہیں کہ امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر کردیا جائے، یہ کام دشوار ضرور ہے لیکن ہماری مخلصانہ کوششیں یہ ہونی چاہیے کہ معاشرے کا توازن بگاڑے بغیر دونوں طبقوں کے ساتھ انصاف کیا جائے‘‘۔ اسی طرح گیارہ اگست 1947کو قانون ساز اسمبلی سے مخاطب ہوتے ہوئے کچھ اس طرح فرماتے ہیں کہ ’’بلیک مارکیٹر بڑے سمجھدار، ذہین اور عام ذمہ دار لوگ ہوتے ہیں، جب ایسے لوگ بلیک مارکیٹنگ میں ملوث ہوتے ہیں تو میں سمجھتا ان کو سخت سزا ملنی چاہیے حتیٰ کہ سزائے موت بھی‘‘۔ پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لئے اس طرح کی باتیں قائداعظم نے صرف قیام پاکستان کے بعد ہی نہیں کیں بلکہ قائداعظم کے خطبات و فرمودات اور کاوشیںگواہ ہیں کہ وہ قوم کو ہر زاوئیے سے مضبوط ومستحکم بنانا چاہتے تھے۔ جیسا کہ 1941ء میں قائداعظم نے بلوچستان میں مسلم لیگ کانفرنس میں اس طرح کہا کہ ’’جب تک کوئی ملک معاشی و اقتصادی طور پر کمزور ہے وہ زندگی کی جنگ جیتنے کی کوئی امید نہیں رکھ سکتا‘‘۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے مرکزی بینک کی بلڈنگ کے افتتاح کے موقع پر معیشت کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لئے بین الاقوامی تناظر میں ایک جامع گائیڈ لائن دی تھی جس سے قائد اعظم کی بصیرت اور دوراندیشی کے انتہائی اعلیٰ پہلو اجاگر ہوتے ہیں قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ’’میں انتہائی اہم کردار کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ مرکزی بینک ملک کی معاشی زندگی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ بینک کی مانیٹری پالیسی پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر دونوں جگہ پرکاروبار اور تجارت کے لئے موثر ہوگی اور خواہش صرف یہ ہونی چاہیے کہ آپ کی پالیسی زیادہ سے زیادہ پیداوار اور آزادانہ تجارت کی حوصلہ افزائی کرے۔ مالی پالیسی ایسی ہونی چاہئے جو جنگی حالات اور عام حالات دونوں میں اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ روزمرہ کے اخراجات میں غیر معمولی اضافے نے معاشرے کے غریب طبقے کو پریشان کررکھا ہے اور لگی بندھی آمدنی والوں کے لئے بھی بہت مشکل ہوتی ہے اوریہ بات ملک کے اندر بے چینی کا سبب بنتی ہے۔ حکومت پاکستان کی پالیسی یہ ہے کہ اشیاء کی قیمتوں کو ایسی سطح پر مستحکم کیا جائے جو خریدار اور سرمایہ دار دونوں کے لئے منصفانہ ہو۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس مقصد کے حصول کے لئے کوششیں کریں گے اور کامیابی سے اس نازک مسئلہ کے حل کے لئے اپنا فعال کردار ادا کریں گے۔ میں بڑی تندہی سے آپ کی تنظیم کی تحقیقی کارروائی دیکھوں گا جو بینکاری کے ایسے اصول مرتب کرے گی جو اسلامی تصورات کی معاشرتی اور اقتصادی زندگی سے ہم آہنگی رکھتے ہوں۔ مغرب کے اقتصادی نظام نے انسانیت کے لئے ناقابل تلافی مسائل پیدا کئے ہیں اور ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لئے یہ بات واضح ہے کہ دنیا کو اب جس تباہی کا سامنا ہے اس سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ مغرب کا اقتصادی نظام انسان کو انصاف مہیاکرنے اور بین الاقوامی انتشار کو ختم کرنے سے یکسر قاصر ہے۔ 

درحقیقت گزشتہ نصف صدی میں دو عالمی جنگوں کی وجہ یہی اقتصادی نظام ہے۔ مغربی دنیا اپنی اعلیٰ ترین صنعتی کارکردگی اور مشین سازی کے باوجودآج تاریخ کے بدترین انتشار کا شکار ہے۔ مغربی اقتصادیات کے نظرئیے اور ضابطہ عمل کو اپنا کر ہمارے لوگ کبھی بھی مطمئن اور خوش حال نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اپنی قسمت خود بنانی ہے اور دنیا کوایک ایسا اقتصادی نظام مہیا کرنا ہے جس کی بنیاد اسلام کے تصور مساوات اور معاشرتی انصاف پر مبنی ہو۔ ہم ایسا کریں گے تو بحیثیت مسلمان اپنے مشن کی تکمیل کردیں گے اور انسانیت کو امن کا پیغام دیں گے۔ یہ پیغام ہی کل انسانیت کی بقائ، راحت اور آسودہ حالی کا ضامن ہے‘‘۔ میں جب بھی قائداعظم کی یہ تقریر پڑھتا ہوں تو مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قائداعظم نے آج کے حالات کا اشارہ ہمیں پہلے ہی کردیا تھا اور اگر ہم قائداعظم کے دئیے گئے اس پائیدار، مضبوط اور طویل المیعاد معاشی نظریہ پر عمل کرتے اور اسکی بنیاد پر اپنے معاشی نظام کی ابتداء کرتے تو کچھ شک نہیں کہ آج پاکستان دنیا کی معاشی طاقت بن سکتا بلکہ 1963ء تک تو پاکستان چین اور کوریا سے بھی معاشی طور پر مضبوط تھا جبکہ 1963ء میں ہی پاکستان نے مغربی جرمنی کو 12کروڑ روپے ترقیاتی قرضہ فراہم کیا تھا اور پاکستان کی ترقی کا تو حال یہ بھی تھا جب حبیب بینک پلازہ کی تعمیر ہوئی تو کئی چینی کمپنیاں اس کا ڈیزائن ہم سے لے کر گئی تھیں۔ کاش ہم اپنے بانی کے نظریات و ارشادت پر عمل کرتے اور ہمارے ارباب اختیار اپنی منافقتوں اور مصلحتوں کا شکار نہ ہوتے تو آج ہماری معاشی ابتری کا یہ حال قطعی نہ ہوتا۔ حد تویہ ہے کہ اس وقت ہماری معیشت کی ترقی کی شرح نیپال 7.5)فیصد(، بھوٹان 6.5)فیصد( اور سری لنکا (6.07فیصد( سے بھی کم ہے بلکہ افغانستان جیسا ملک بھی ہم کو آنکھیں دکھانے لگا ہے جبکہ قیام پاکستان سے پہلے جب ایک بار قائد اعظم سے سوال کیا گیا کہ آپ پاکستان بنا لیںگے تو ہندوستان میں باقی رہ جانے والے مسلمانوں کا کیا ہو گا؟ اس پر قائد اعظم نے فرمایا تھا ’’ہم پاکستان کو اس قدر طاقتور و مضبوط بنائیں گے کہ یہاں رہ کر بھی ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کر سکیں‘‘۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمارے ارباب اختیار کو آنکھیں کھولنا، خواب غفلت سے جاگنا اور مصلحت و منافقت کو ختم کرنا چاہیے اور صحیح معنوں میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے افکار ونظریات کی روشنی میں اپنی صحیح سمت کا تعین کرنا چاہیے۔ ہمارے ملک کی سیاسی، سماجی، معاشرتی اور معاشی مضبوطی و ترقی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔

مزیدخبریں