سعودی عرب کے بعد متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کو تین ارب ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ رقم سٹیٹ بنک میں رکھوائی جائے گی۔ اس سلسلہ میں ابوظہبی ڈویلپمنٹ فنڈ نے بتایا کہ آئندہ چند دنوں مےں یہ رقم سٹیٹ بنک میں جمع ہو جائے گی جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا اور معیشت کو سہارا ملے گا۔ یو اے ای پاکستان میں مختلف منصوبوں پر بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے جن میں توانائی ، صحت ، تعلیم اور سڑکوں کے منصوبے شامل ہیں۔ پاکستان میں تعینات متحدہ عرب امارات کے سفیر جماد عبید الذیبی نے اس سلسلہ میں اپنے بیان میں کہا کہ ابوظہبی فنڈز برائے ترقیاتی امور کی جانب سے تین ارب ڈالر کی سٹیٹ بنک آف پاکستان میں جمع ہونے والی رقم کا مقصد پاکستان کی مالیاتی ا ور مانیٹری پالیسی کو مضبوط کرنا اور اس کے مالیاتی استحکام میں مدد دینا ہے۔ ا نہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے عوام کے تاریخی رشتے ان سماجی و ثقافتی تعلقات کی بنیاد پر ہیں جن کے ذریعے دونوں ممالک صدیوں سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں جبکہ باہمی تعلقات مختلف شعبوں میں وسیع البنیاد تعاون کی عکاسی کرتے ہیں۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خاں نے اپنے ٹویٹر پیغام میں یو اے ای کی جانب سے پاکستان کی مالی مدد کے لئے تین ارب ڈالرز کا فنڈ دینے پر کہا کہ مشکل وقت میں فراخدلی سے پاکستان کی مدد کرنے پر ہم متحدہ عرب امارات کے شکر گزار ہیں۔ ان کے بقول یہ برسوں پر محیط ہماری دوستی اور کمٹمنٹ کا عکاس ہے اور دوطرفہ تعلقات کی بہت بڑی مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ امارات کے تین ارب ڈالر پاکستان کی مانیٹرنگ اور فسکل پالیسی میں مدد فراہم کریں گے جبکہ اس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی یو اے ای کی جانب سے پاکستان کے لئے 3 ارب ڈالر کی مالی معاونت کی ستائش کی اور کہا کہ اس مالی سپورٹ پر وہ متحدہ عرب امارات اور کراﺅن پرنس محمد بن زید کے مشکور ہیں۔ یہ پیکج پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے دیرینہ تعلقات کا مظہر ہے۔ ان کے بقول یو اے ای نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار میں آنے کے بعد ملک اور قومی معیشت کو درپیش سب سے زیادہ مالی اور اقتصادی بحرانوں کا ہی سامنا کرنا پڑا، اس حکومت کو قومی خزانہ خالی ملا جبکہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اس نچلی سطح تک پہنچے ہوئے تھے کہ اگلے چند ماہ تک بھی ملک کے مالی معاملات چلانا اور سرکاری ملازمین کو تنخواہ تک ادا کرنا مشکل نظر آ رہا تھا۔ پھر طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ عمران خاں کے اقتدار سنبھالتے ہی ڈالر کی اونچی پرواز شروع ہو گئی جس کے باعث بیرونی قرضے بھی بیٹھے بٹھائے آٹھ سے دس فیصد بڑھ گئے جس کی ادائیگی کے لئے قسطوں کے حجم میں بھی اضافہ ہو گیا۔ یہی وہ حالات تھے کہ حکومت کو ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے نئے قرض کی خاطر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی مجبوری لاحق ہوئی۔ آئی ایم ایف پہلے ہی پاکستان کے آنے والے حالات کو بھانپ چکا تھا اس لئے اسکی جانب سے پاکستان کے قرض کے لئے رجوع کرنے پر اس کے لئے کڑی اور ناروا شرائط پہلے ہی تیار تھیں۔ حکومت کی جانب سے ابھی آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا عندیہ ہی دیا گیا تھا کہ آئی ایم ایف نے اپنی شرائط کی پٹاری کھول کر پاکستان کو ڈکٹیشن دینے کاسلسلہ شروع کر دیا۔ ا س کے علاوہ امریکی ٹرمپ انتظامیہ بھی لٹھ لے کر پاکستان کے پیچھے پڑی نظر آتی تھی ا ور ا س کی سول اور فوجی گرانٹ میں کٹوتی اور پھر اسے مکمل بند کرنے کی دھمکیاں واشنگٹن اور پنٹا گون کے حکام کی جانب سے مل رہی تھیں جس کا مقصد پاکستان سے ڈومور کے تقاضے بڑھانا اور افغانستان میں امن کی بحالی کے لئے اسے کردار ادا کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ اس معاملہ میں خود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر بداعتمادی کا اظہار کیا جانے لگا ا ور پھر سپورٹ فنڈ کی مد میں اسے دی جانے والی گرانٹ مکمل بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا جس سے پاکستان کا مزید مالی اور اقتصادی مشکلات کا شکار ہونا فطری امر تھا۔
پاکستان کو درپیش اس کٹھن صورت حال سے عہدہ براءہونے کے لئے وزیراعظم عمران خاں نے برادر مسلم ممالک سعودی عرب اور ہمیشہ کے لئے قابلِ بھروسہ دوست ملک چین سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنا پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا جو توقعات سے بھی زیادہ کامیاب رہا اور ہر سردگرم میں ہمارا بے لوث ساتھ دینے والے اس برادر مسلم ملک نے پاکستان کو اقتصادی مشکلات سے نکالنے کے لئے مجموعی 12 ، ارب ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا جس مےں چھ ارب ڈالر کی قسط وار ادائیگی اور تین سال تک پاکستان کی ضرورت کا تیل ادھار دینے کا اعلان شامل تھا۔ برادر سعودی عرب کی جانب سے ایک ایک ہزار ارب ڈالر کی دو قسطیں ادا بھی کی جا چکی ہیں جو اس برادر مسلم ملک کی بے لوث دوستی کا بین ثبوت ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم نے اپنا دوسرا دورہ چین کا کیا تو یہ بھی توقعات سے بڑھ کر بارآور ہوا۔ چین پہلے ہی سی پیک کے مشترکہ منصوبے کے ذریعہ ہماری معیشت کو ترقی سے ہمکنار کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھا رہا ہے اور 2022ءتک اس مشترکہ راہداری کے اپریشنل ہونے سے پاکستان کے لئے اس خطے میں ہی نہیں، مغرب اور یورپ تک کی تجارتی منڈیوں تک رسائی کے دروازے کھل جائیں گے جس کے بعد اقتصادی ترقی ہمارے قدم چومتی نظر آئے گی۔ چین نے صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ وزیر اعظم عمران خاں کے دورہ¿ چین کے موقع پر پاکستان کے لئے مزید اقتصادی پیکجز کا بھی اعلان کیا جو ملکی معیشت کو مستحکم بنانے میں مزید ممد و معاون ثابت ہوں گے۔ اسی دوران برادر مسلم ملک متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی پاکستان کو مثبت سگنل دئیے جا چکے تھے جس کی بنیاد پر وزیر اعظم عمران خاں اس برادر ملک کے بھی دورے پر گئے اور وہاں سے مثبت وعدے وعید لے کر لوٹے۔ اب ان وعدوں کو آنر کرتے ہوئے یو اے ای کی جانب سے پاکستان کو تین ارب ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا نہ صرف اعلان کیا گیا ہے بلکہ یہ رقم سٹیٹ بنک آف پاکستان میں منتقل کرنے کے اقدامات بھی اٹھا لئے گئے ہیں۔ چنانچہ دوست ممالک کے عملی تعاون سے ہمارے لئے نہ صرف ملک کو گھمبیر اقتصادی بحران سے نکالنے کی فضا ہموار ہوئی ہے بلکہ عملاً اس ارضِ وطن پر ”ہُن“ برستا نظر آ رہا ہے جو قومی معیشت کو استحکام سے ہمکنار کر کے اسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا سکتا ہے۔
اس کے برعکس جس امریکہ کا فرنٹ لائین اتحادی بن کر ہم نے اپنے قومی مفادات کے قطعی برعکس اس کے مفادات کی جنگ لڑی اور بیش بہا جانی اور مالی قربانیاں دیں، اس کے ڈومور کے تقاضے آج بھی تسلسل کے ساتھ جاری ہیں جبکہ اس نے ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کو تھپکی دے کر اور ہماری سلامتی کے خلاف جنگی، جنونی، توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے اس کی عملاً سرپرستی کر کے ہماری سلامتی کے لئے مزید سنگین خطرات پیدا کر دئیے ہیں۔ آج بھارت امریکی ایما پر ہی ہمیں اور ہمارے مخلص دوست چین کو آئے روز چیلنج کرتا نظر آتا ہے جبکہ کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کے ذریعہ کشیدگی بڑھانا اس کا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ امریکہ نے افغان جنگ مےں ہمیں پہنچنے والے نقصانات کی تلافی کے لئے نیٹو ممالک کے سپورٹ فنڈ سے 12 ارب ڈالر کی گرانٹ منظور کی جس کی کڑی شرائط اور ڈومور کے تقاضوں کے ساتھ بمشکل چار ارب ڈالر کی کی قسطیں ہی ادا ہوئی تھیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے انتہائی رعونت کے ساتھ ہم پر سرد مہری اور ڈو مور کے تقاضے قبول نہ کرنے کے الزامات کے تحت ہماری باقیماندہ رقوم روک لیں جس سے بڑی ہمارے ساتھ اور کوئی طوطا چشمی نہیں ہو سکتی۔ حد تو یہ ہے کہ جب ہماری جانب سے نئے قرض کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا گیا تو اس پر بھی واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے ڈکٹیشن کا سلسلہ شروع ہو گیا کہ یہ قرضہ چین کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ یہ ڈکٹیشن درحقیقت ہمارے ساتھ چین کی بدگمانیاں پیدا کرنے کی سازش تھی جس کا خود چین کی جانب سے مسکت جواب دیا گےا۔ یہ صورت حال ہم سے اس امر کی متقاضی ہے کہ ہم اپنے بے لوث اور مخلص دوستوں کے ساتھ ہر شعبے میں تعاون بڑھائیں اور اپنی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے آئی ایم ایف یا امریکہ سے رجوع کرنے کے بجائے انہی دوست ممالک کی معاونت حاصل کریں جنہوں نے آج تک ہمیں تنہائی کااحساس تک نہیں ہونے دیا۔ ہر مشکل وقت میں ہماری مالی سپورٹ اور مختلف شعبوں میں معاونت کی ہے اور کبھی ہمیں ناروا شرائط کے ساتھ نہیں باندھا۔ ان میں آج متحدہ عرب امارات بھی ہمارے بے لوث دوستوں کی صف میں شامل ہو چکا ہے جس نے ہمارے لئے تےن ارب ڈالر کی خطیر رقم کی مالی امداد فراہم کر کے عملاً آئی ایم ایف کے قرضوں سے نجات حاصل کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم عمران خاں خوش قسمت ہیں کہ ان کے لئے ملک کو سنگین ترین اقتصادی اور مالیاتی بحرانوں سے نکالنے کے مواقع بھی بغیر کسی تردد کے پیدا ہو گئے ہیں۔ ان کی حکومت کو اب بہرصورت ملک کو آئی ایم اےف کے شکنجے سے نکالنے کا ضرور تردد کرنا چاہئے تاکہ ہماری آنے والی نسل کم از کم قرضوں میں جکڑی ہوئی پیدا ہوتی نظر نہ آئے۔