دسمبرکے پہلے عشرے میںمیرے ملک میں دکھی شاعری کا طوفان آجاتا ہے ۔دسمبر کے دوسرے عشرے میں پاکستانیوں کو دو ایسے زخم ملے جو شائد رہتی دنیا تک بھلائے نہ جاسکیں ۔لیکن دسمبر کا آخری عشرہ ہمارے لیے دو بڑی خوشیاں لیے پہنچ جاتا ہے ۔یعنی پچیس دسمبر وہ دن جب حضرت عیسی علیہ سلام اوربرصغیر ہند کے مسلمانوں کے نجات دہندہ قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش۔آج مجھے میرے پیارے قائد کی سالگرہ پہ کچھ لکھنا ہے لیکن قبل اس کے کہ میں قائد کے بارے کچھ لکھنا شروع کروں ۔بھارتی حکومت کے مسلمانو ںبارے شدت پسند رویے پہ کچھ بات کر لیتے ہیں ۔آج کل بھارت کی بہت سی ریاستوں میں پر تشدد مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں کالے قوانین کے خلاف احتجاج میں روز بروز شدت آ رہی ہے، جس میں مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شامل ہو رہے ہیں۔سابق بھارتی صدر پرناب مکھرجی کی بیٹی سرمشٹھا مکھرجی کو اس وقت حراست میں لے لیا گیاجب وہ نئی دہلی میں وزیر داخلہ اْمیت شاہ کی رہائشگاہ کی جانب پیدل مارچ کرنے والے ایک قافلے کو لیڈ کر رہیں تھیں ۔ دہلی کی تاریخی جامع مسجد میں نماز جمعہ سے قبل ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوئے ۔جن مسلمانوں کے ساتھ ساتھ نوجوان دلت رہنما چندر شیکھر آزاد بھی پہنچے اور شہریت سے متعلق نئے ایکٹ کے خلاف انہوں نے وہاں جم کے نعرے بازی بھی کی ۔تجزیہ نگاروں کے مطابق نریندر مودی کے زیر سایہ پورے بھارت کو کشمیر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ بھارت میں مقیم بیس کروڑ مسلمانوں کے خدشات بالکل درست اور حقائق پر مبنی ہیں کہ اس شہریت بل کا مقصد تارکین وطن کی مدد نہیں بلکہ یہ نریندر مودی اور بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی اس مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی محرومیوں میںاضافہ کرنا اور بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے اندر ایک ڈر آج بھی کہیں چھپا بیٹھا ہے کہ جب باہر سے بہت تھوڑی تعداد میں آکے مسلمان انہیں اپنا محکوم بنا سکتے ہیں تو یہاں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان آگے چل کے ان کی نسلوں پہ حکومت بھی کر سکتے ہیں۔وہ اس ڈر کو کبھی ڈھکے چھپے انداز میں زبان پہ بھی لاتے ہیں ۔کبھی انہیں بھارت میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی کھٹکتی ہے اور شائد اسی ڈر کی وجہ سے انہوں نے پاکستان ,افغانستاں اور بنگلہ دیش میں موجود ہنددوں کے لیے بھارت کی شہریت کھولنے کا اعلان کیا ہے ۔لیکن کیا کیجیے ان کے ہر ستم پہ مسلمان جھکنے کی بجائے مزید دلیری سے کھڑے ہو رہے ہیں ۔کچھ وقت کے لیے لگ رہا تھا کہ بھارتی مسلمان ڈر گئے ہیں لیکن کشمیر میں جاری موجودہ جبر اور پھر بابری مسجد کے فیصلے کے بعد سے مسلمان بھارت میں زخمی ناگ کی طرح پھنکار رہے ہیں۔ اس ایک فیصلے نے سارے بھارت میں مسلمانوں کو اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑا ہونے کا موقع دے دیا ہے ۔یہ ایک تلخ نقطہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو نہ تو عالمی دنیا اور نہ ہی اسلامی دنیا سے کوئی مدد ملنے کی امید ہے ۔تو کیا بھارت میں جناحؒ کا کوئی اور جانشین پیدا ہونے والا ہے ۔کیا بھارتی مسلمانوں کو اپنے حق کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے والا کوئی اور قائد سامنے آنے والا ہے ۔بڑے لیڈر ایسے وقت ہی سامنے آتے ہیں اور اپنی قابلیت ,ذہانت اور فیصلہ سازی سے دنیا میں ایسا کام کر جاتے ہیں کہ بعد میں آنے والے انہیں قائد اعظم کہنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں ۔صاحبو میرے قائد کی عظمت کو سلام ہے کہ انہوں نے حضرت علامہ اقبالؒ کے خواب کو عملی شکل دینے کے لیے دن رات محنت کی۔ شاطر انگریز اور بدنیت ہندووں کو اپنے دلائل سے شکست دیتے ہوئے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن حاصل کر دکھایا ۔اب دیکھتے ہیں کب تک جبر چلتا ہے ابھی چند ماہ پہلے عمران خان ,مہاتیر محمد اور ترک صدر طیب اردگان نے مسلمانوں کے حق کے لیے ان کی داد رسی کے لیے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم بنانے کی نوید سنائی تھی۔
مہاتیر محمد نے شہریت قانون اور مظاہرین پر تشدد کی شدید مخالفت کی ہے ۔ترک صدر بھی بھارتی مسلمانوں کے لیے کلمہ حق کہنے سے دریغ نہیں کریں گے ۔لیکن اصل کامیابی اسی وقت ملے گی جب بھارتی مسلمانوں کے اندر سے کوئی ایسا قدر آور لیڈر سامنے آئے گا جو نہ جھکایا جائے سکے گا نہ ڈرایا جا سکے گا اور نہ دبایا جاسکے گا ۔وہ جب بولے گا تو دنیا اس کی بات سنے گی ۔بس قائد قائد اعظم جیسا ہونا چاہیے۔بھارتی میڈیا بھی آج قائد کے جانشین کے آنے کی خبریں دے رہا ہے ۔سب پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ قائد اعظم کی روح کے ثواب کے لیے روز دعا کیا کریں اور یہ دعا بھی کیا کریں کہ اے خدا قائد اعظم کا ایک جانشین ہمیں بھی عطا کر دے ۔یہ قوم بکھر چکی ہے اندر سے ٹوٹ چکی ہے ہر کسی کے دامن پہ داغ لگ رہے ہیں۔مدد فرما مالک اور قائد اعظم جیسا با کردار باصلاحیت راہنما عطا کر دے۔آمین