اسلام آباد ( عبداللہ شاد - خبر نگار خصوصی) سکھوں اور مسلمانوں کیخلاف نفرت کی خصوصی شہرت رکھنے والے نریندر مودی کو اب اقلیتوں کی یاد ستانے لگی ہے، دہلی میں جاری سکھ دھرنا نے مودی حکومت کو سخت نقصان پہنچایا ہے، دھرنے کے تناظر میں مسلمانوں کیخلاف کاررائیوں کا پول بھی کھل گیا ہے، اب مودی نے اس ساری صورتحال کو ’’ڈی فیوز‘‘ کرنے کیلئے سکھوں اور مسلمانوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام بدلنے اور اس کے نصاب میں تبدیلی بی جے پی کے منشور میں سر فہرست ایجنڈے تھے، مگر گذشتہ روز مودی نے یونیورسٹی کے قیام کی 100 سالہ سالگرہ سے 35 منٹ طویل آن لائن خطاب کیا اور اپنی سیکولر روایات کا ڈھنڈورا پیٹا۔ اس سے قبل مودی سکھ دھرم کے گرو تیغ بہادر کی برسی پر دہلی میں واقع گُرو دوارا رکاب گنج گئے اور ماتھا ٹیک کر سکھوں سے ’’پر امن‘‘ رہنے کی اپیل کی۔ گُرو دوارا رکاب گنج میں مودی کا یہ دورہ بالکل اچانک تھا۔ اس دوران انھوں نے گرو تیغ بہادر کی قربانیوں کی تعریفیں بھی کی، انھوں نے سکھوں کی طرح سر پر کپڑا بھی باندھا اور بھارتی میڈیا سے اس دورے کی بھرپور کوریج کرائی گئی۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مودی کی ان کاوشوں کی حقیقت بھارت کے سکھوں اور مسلمانوں پر عیاں ہے لہذا دہلی سرکار کی ان سرگرمیوں کو ’’ڈرامہ بازی‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے، یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ اگر بی جے پی یکایک سکھوں اور مسلمانوں کی اتنی ہمدرد ہو گئی ہے تو وہ سکھوں کا دیرینہ مطالبہ قبول کرتے ہوئے متنازعہ زرعی قانون اور نئے لو جہاد ایکٹ کو واپس کیوں نہیں لے لیتی؟ حیدر آباد میں مسلمانوں نے مظالم کیخلاف ایک ریلی نکالی جس میں مودی بارے کہا گیا کہ ’’ ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا‘‘۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے مودی کے خطاب کے دوران بھی طلبہ تنظیموں نے احتجاج ریکارڈ کرایا ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی جانب سے وقتاً فوقتاً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیخلاف بیانات دیئے جاتے ہیں اور کئی مرتبہ مسلح ہندو جنونیوں کے جتھے اس ادارے پر چڑھائی بھی کر چکے ہیں۔
بگڑتے حالات، مودی کی مسلمانوں ، سکھوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش
Dec 23, 2020