ہاتھ بوجھل ہیں‘ قلم قاصر ہے ‘ فکر الجھی ہے ‘ مدعا مغموم‘ مقصد موہوم ہے۔ کیا لکھوں‘ کہاں سے شروع کروں ‘ کیسے لکھوں۔ جعلسازوں ‘ بے ضمیروں نے تو پاک سرزمین کا کوئی ادارہ نہیں چھوڑا‘ کسی انسٹی ٹیوٹ اور درسگاہ کو نہیں بخشا۔ میری مربی و تاریخی درس گاہ جامعہ پنجاب کی روشن جبیں سے ’’تارضیاء ‘‘ چرا کر ’’سیاہ ترین شکلوں‘‘ کو چمکانے کی کوشش کی گئی۔ پنجاب یونیورسٹی نے لاہور کی تاریخی مال روڈ کے کنارے ‘ مشہور زمانہ انار کلی بازار کے عین پڑوس میں -14 اکتوبر 1882ء میں اپنے سنگ بنیاد سے لیکر آج 2020ء میں 138 سال تک صرف پاکستان ہی نہیں ‘ پوری دنیا کو گریجویٹس مہیا کیے۔ پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ بھی آسمان علم و ادب پرستاروں کی طرح چمکے۔پنجاب یونیورسٹی کی جس فیکلٹی اور شعبے میں جھانکیں آسمان علم و ادب اور دنیائے تحقیق کے افق پر کہکشائیں ہی کہکشائیں ہیں جن کی خدمات کا احاطہ قلم و قرطاس کے بس میں نہیں۔ ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر ‘ سر اورل سٹائن ‘ اے سی وولنر جیسے مستشرقین نے خدمات انجام دیں‘ علامہ اقبال ‘ سرتھامس آرنلڈ ‘ مولانا فیض الحسن سہارنپوری ‘ مولانا محمد حسین آزاد ‘ حافظ محمود شیرانی جیسے اثاثہ و سرمایہ امت ‘ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع ‘ علامہ عبدالعزیز میمن‘ ڈاکٹر سید عبداللہ ‘ ڈاکٹر محمد باقر ‘ ڈاکٹر عبادت بریلوی ‘ ڈاکٹر عبدالشکور احسن ‘ ڈاکٹر وحید قریشی جیسی علمی و ادبی شخصیات بھی پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ رہیں ‘ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر تو عجم سے زیادہ عرب میں جانے گئے ہیں‘ ڈین اورئینٹل لرننگ پروفیسر ڈاکٹر خالق داد ملک کو بھی عرب دنیا نے ایک جدید محقق کے طور پر خوش آمدید کہا ہے اور انکی شاندار علمی و تحقیقی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر اکرم چودھری (سابق وائس چانسلر گردھا یونیورسٹی)۔ پروفیسر ڈاکٹر سید مظہر معین اور ڈاکٹر سید قمر علی زیدی کی علمی خدمات کا احاطہ بھی چند سطور میں ممکن نہیں۔ ڈاکٹر شاہد منیر (وائس چانسلر جھنگ یونیورسٹی) جنہوں نے کول پراجیکٹ میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا‘ وہ بھی پنجاب یونیورسٹی کے آسمان علم و تحقیق کا ہی ستارہ ہیں۔ ڈی ایم جی‘ پولیس‘ انتظامیہ‘ عدلیہ‘ وکالت‘ سیاست‘ صنعت و تجارت‘ ادب سمیت جس شعبے اورعلم و فن میں بھی دیکھیں آپ کو پنجاب یونیورسٹی کے مونوگرام پر لکھی قرآن کی آیت ’’وللہ المشرق و المغرب‘‘ (اور اللہ ہی کیلئے ہے مشرق و مغرب) کے مصداق پوری دنیا میں جہاں جہاں جائیں گے‘ آپکو کسی نہ کسی شعبہ میں پنجاب یونیورسٹی کا گریجویٹ ضرور مل جائیگا۔نئی کھیپ میں پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ کا تذکرہ کروں تو ڈسپلن فورس میں جیل اصلاحات کا بیڑہ اٹھانے والے ڈی آئی جی ملک مبشر احمد خان‘ ڈی آئی جی ملک شوکت فیروز‘ ڈی آئی جی چودھری سعید اللہ گوندل بھی پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ ہی نظر آئینگے۔ عدلیہ اور وکالت میں تو پنجاب یونیورسٹی خودکفیل ہے۔ اسی لئے تو نوسربازوں اور جعلسازوں نے میری مادر علمی کی روشن جبیں سے ’’مونو گرام‘‘ چرا کے کالے کوٹ پہنے اور وکلاء کے نمائندے منتخب ہوکر آئین و قانون کو موم کی ناک بنائے رکھا۔ تاہم عدلیہ میں شیخ اعجاز احمد جیسے شریف النفس‘ ایماندار و دیانتدار چہرے بھی ’’پنجابیئن‘‘ کیلئے قابل فخر ہیں۔ بیورو کریسی میں شیخ منیب الرحمن کا نام بھی ’’پنجابیئن‘‘ کیلئے باعث اطمینان ہے۔ پولیس میں پنجاب یونیورسٹی کا حصہ ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ رانا شبیر احمد خان اور چودھری عابد وڑائچ جیسے افسر سرمایہ ہیں۔ لیکن افسوس اور دکھ اس وقت ہوا جب پنجاب یونیورسٹی کا آیت مقدسہ والا مونو چرا کر ’’بلہڑ یونیورسٹی‘‘ کی طرح ڈگریاں ’’ٹکے ٹوکری‘‘ کی گئیں جس پر جعل ساز کالے کوٹ پہن کر مقدس پیسہ وکالت سے منسلک ہوگئے۔ جعل سازوں نے یہیں بس نہیں، وکلاء کی نمائندگی بھی کرنے لگ گئے۔ تحصیل یا ڈسٹرکٹ بار تک رہتے تو اور بات تھی وہ پنجاب بار کونسل کے رکن بن گئے۔ مقبولیت اور قسمت جعل سازوں اور نوسربازوں کے ساتھ ساتھ رہی۔ پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین اور چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی جیسے اہم عہدوں پر فائز ہوگئے۔ محنت سے اصلی ڈگریاں حاصل کرکے آنے والوں کو جعلی ڈگری والے کے دستخط سے پنجاب بار کونسل کی طرف سے وکالت کے لائسنس جاری ہوتے رہے۔ یہ تو بھلا ہو ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان کا جنہوں نے جعل سازوں کو بے نقاب کیا۔ تاہم پنجاب بار کونسل کی طرف سے جعل سازوں کیخلاف سخت ترین کارروائی کی قوم منتظر ہے کہ ان جعل سازوں اور نوسربازوں نے (بحیثیت عہدیدار پنجاب بار کونسل) جو جو فیصلے کئے ہیں ان کو نہ صرف کالعدم قرار دیا جائے بلکہ انکے نام پنجاب بار کونسل کے مرکزی دروازے پر چسپاں کردیئے جائیں کہ پیشہ وکالت کو دھبہ لگانے والے یہی چور‘ نوسرباز اور جعل ساز ہیں اور انکے دستخطوں سے جاری ہونیوالے لائسنس منسوخ کرکے نئے سرے سے جاری کئے جائیں۔ کڑی سزا دی جائے، مراعات بھی واپس لی جائیں ورنہ پنجاب یونیورسٹی اور پنجاب بار کونسل کی اینٹ گارے سے بنی عمارتیں تو بے زبان ہیں لیکن مؤرخ ان کا نوحہ لکھتا اور تاریخ نوحہ پڑھتی ر ہے گی۔ حفیظ جالندھری کے بقول
اب تو کچھ اور بھی اندھیرا ہے
یہ میری رات کا سویرا ہے
رہزنوں سے تو بھاگ نکلا تھا
اب مجھے رہبروں نے گھیرا ہے
قافلہ کس کی پیروی میں چلے
کون سب سے بڑا لٹیرا ہے