بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی 144 ویں سالگرہ پرسوں منائی جائے گی۔ قائداعظم کے پاس نہ دولت کے خزانے تھے، نہ لاؤ لشکر، نہ خفیہ تنظیمیں تھیں، نہ پوشیدہ اسلحہ۔ انکے پاس ایک ہی قوت تھی اور وہ تھی عظمت کردارکی بے پناہ طاقت۔ قائداعظم نے مسٹر اصفہانی سے کہا ’’میرے عزیز! یاد رکھو، پبلک زندگی میں اخلاقی دیانت، پرائیویٹ زندگی سے بھی زیادہ اہم ہے۔ پرائیویٹ زندگی میں بددیانتی سے کسی ایک شخص کو نقصان پہنچتا ہے لیکن پبلک زندگی میں بددیانتی سے لاتعداد لوگ مجروح ہوتے ہیں اور اس سے ہزارہا ایسے لوگ بے راہرو ہو جاتے ہیں، جن کا آپ پر اعتماد ہوتا ہے‘‘ دیانت داری کی سب سے بڑی کسوٹی روپیہ ہے۔ قائداعظم کو اس ذمہ داری کا احساس تھا۔ انہوں نے مسلم لیگ کیلئے فنڈ کی اپیل کی تو ہرروز سینکڑوں منی آرڈر پر خود دستخط کرتے تھے۔ جب ان سے کہا جاتا کہ یہ کام کوئی اور بھی کر سکتا ہے تو فرماتے ’’فنڈ کی اپیل میں نے کی ہے۔ لوگ میرے اعتماد پر پیسے بھیجتے ہیں۔ مجھے ایک ایک پیسے کا حساب دینا ہوگا۔ اس لیے رسیدیں مجھے ہی دینی چاہئیں۔‘‘حضرت عمرؓ نے خلافت کا مطلب ہی یہ بتایا تھا کہ خدا پوچھے گا کہ کہاں سے لیا اور کسے دیا تھا۔ قائداعظم پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے سرکاری مکان میں رہائش پذیر ہو گئے تو ان کی یہ روش تھی کہ جس کمرے میں روشنی کی ضرورت نہ ہوتی، اس کمرے کا بلب خود بجھا دیتے۔قائداعظم نے فرمایا ’’اخلاقی قوت، جرأت، محنت اور استقلال وہ چار ستون ہیں جن پر انسانی زندگی کی پوری عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے۔ میں کبھی ناکامی کے لفظ سے آشنا نہیںہوا‘‘ ان چار میں ایک اور جزو کو بھی شامل کرنا چاہیئے۔ اور وہ ہے، خونِ جگر، جس کے بغیر علامہ اقبال کے الفاظ میں ’’ہر نقش ناتمام رہ جاتا ہے‘‘ قائداعظم نے یکم مارچ 1945ء کو مسلم لیگ ورکرز سے کلکتہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں ایک بوڑھا آدمی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے اتنا دے رکھا ہے کہ میں اپنی اس بڑھاپے کی زندگی کو نہایت آرام و سہولت سے گزار سکتا ہوں۔ مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ میں دن رات بھاگے بھاگے پھروں اور اپنا خون پسینہ ایک کردوں۔ میں یہ تگ وتاز سرمایہ داروں کیلئے نہیں کر رہا۔ میں یہ محنت آپ غریبوں کیلئے کر رہا ہوں۔ میں نے ملک میں درد انگیز مفلسی کے مناظر دیکھے ہیں۔ ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان میں ہر فرد خوشحالی کی زندگی بسر کر سکے‘‘ 1943-44ء میں جنگِ پاکستان اپنی انتہائی شدت پر پہنچ چکی تھی۔ مصلحت کا تقاضا تھا کہ اس وقت پر بڑے بڑے متمول شرکا کو اپنے ساتھ رکھا جائے۔ 1943ء میں دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا خاص اجلاس منعقد ہوا۔ اسکے صدارتی خطاب کے دوران قائداعظم نے فرمایا: ’’میں زمینداروں اورسرمایہ داروں کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ایک ایسے فتنہ انگیز ابلیسی نظام کی رو سے، جو انسان کو ایسا بدمست کر دیتا ہے کہ وہ کسی معقول بات کے سننے کیلئے آمادہ نہیں ہوتا، عوام کے گاڑھے پسینے کی کمائی پر رنگ رلیاں مناتے ہیں۔ عوام کی محنت کو غصب کر لینے کا جذبہ ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔ میں اکثر دیہات میں گیا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ لاکھوں خدا کے بندے ہیں جنہیں ایک وقت بھی پیٹ بھر کر روٹی نہیں ملتی۔ کیا اسی کا نام تہذیب ہے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصود ہے؟ اگر پاکستان کا یہی مقصود ہے تو میں ایسے پاکستان سے باز آیا۔ اگر ان سرمایہ داروں کے دماغ میں ہوش کی ذرا سی بھی رمق باقی ہے تو انہیں زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ چلنا ہو گا۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو ان کا خدا حافظ۔ ہم ان کی کوئی مدد نہیں کر سکیں گے‘‘ ایک دفعہ ان کے بعض مداحوں نے جوش عقیدت میں انہیں امیر المومنین کہہ کر پکارا۔ انہوں نے فوراََ روک دیا اور کہا کہ میں امیر المومنین نہیں ہوں۔ میری تعریف میں حد سے مت بڑھو۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے ساتھ قائداعظم کو جس قدر گہرا تعلق تھا اور وہاں کے طلبہ کے دل میں ان کا احترام جس قدر تھا۔ اس کی بابت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ 1942ء کا ذکر ہے کہ ان کے اسی احترام اور عظمت کے پیشِ نظر اس یونیورسٹی نے ڈاکٹر آف لاء کی ڈگری کی پیش کش کی لیکن قائداعظم نے اسے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ ’’میں مسٹر جناح ہی اچھا ہوں، آپ کا شکریہ!‘‘
قارئین! میں نے قائداعظم کی زندگی اور تابندہ کردار کی چند جھلکیاں پیش کی ہیں۔ آپ سوچیئے کہ کیا قائداعظم کے بعد پاکستان کو کوئی ایسا لیڈر ملا جو ان کے مشن کو آگے بڑھا سکا ہو۔ قائداعظم کے راستے سے ہٹ کر ہم منتشر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا کوئی لیڈر نہیں جو ہمیں سمیٹ سکے، محبت کی بناپر۔ اصل میں جب رواداری ختم ہوتی ہے تو ایک دوسرے کیلئے نفرت و حقارت پیدا ہو جاتی ہے۔ کسی پر اعتماد نہیں رہتا۔ ہر شخص دوسرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ جب کوئی قابل اعتماد نہ رہے تو پھر آپ کا معاشرہ کس قسم کا ہو گا۔ معاشرہ منتشر ہو جائے گا۔ یہی کیفیت اس وقت ہماری ہے۔