جن معاشروں میں مسلمان اقلیت میں ہیں انہیں معتدل بنانے کی ضرورت ہے،مقررین

اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)دنیا میں دین اسلام کو امن اور مفاہمت کے حقیقی تشخص کے طور اجاگر کرنے کیلئے بین المذاہب ثقافتی تبادلوں اور بین الاقوامی سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ مسلمانوں کے رابطے کو استعمال کرتے ہوئے مغرب میں مسلمانوں کے متعلق منفی تاثر کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ویب نار سے شرکانے خطاب کے دوران کیا جن میں معروف پروفیسر مہمت اوزلت، ڈاکٹر ڈینیل تت اور ڈاکٹر امینہ یقین شامل تھیں۔ ڈاکٹر مہمت نے کہا کہ مسلمانوں کے متعلق منفی تاثر کے خاتمہ کیلئے میڈیا کواہم کردار ادا کرنا ہے اور سماجی و سیاسی زاویوں کو استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔
 انہوں نے کہا کہ جن معاشروں میں مسلمان اقلیت میں ہیں انہیں معتدل بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ ثقافتی یکجہتی کے فقدان کے باعث وہ ان معاشروں کے لوگوں سے الگ تھلگ ہیں۔ ڈاکٹر امینہ یقین نے اسلامو فوبیا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی شناخت کو سیاسی شناخت سے الگ رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے خواتین کے خلاف مختلف ثقافتی مثالوں کا حوالہ دیا جنہیں غلط طور پر اسلامی بنیاد پرستی سے جوڑا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر ڈینیل نے شناختی نسل پرستی کے اسباب بیان کئے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو تہذیبی تصادم کے بعد کی صورتحال کا سامنا ہے اور مغرب میں مسلمانوں کے تشخص بارے منفی تاثر کے خاتمہ کیلئے دانشمندانہ لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہئے۔ تمام شرکانے مغرب میں مسلمان تارکین وطن کی جانب سے بہتر سوچ اور کردار کے ذریعے ایسے منفی تاثرات کے خاتمہ کی ضرورت پر زور دیا۔ آئی پی آر آئی کے قائم مقام صدر بریگیڈیئر (ر) راشد ولی جنجوعہ نے کہا کہ مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا کی منظم مہم کے خاتمہ کیلئے اسلامی ممالک اور تارکین وطن کی مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن