2nd  Term  for  Imran  Khan

میں قوم کو ایک نیا نعرہ دے رہا ہوں۔ سیکنڈ ٹرم فار عمران خان۔
نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہے، محترمہ بے نظیر دو بار وزیر اعظم بنیں، ان کی پارٹی نے چار بارا س ملک پر حکومت کی، شہباز شریف بھی بار بار وزیر اعلی بنے اور جب نہیں بنے تو پیچھے بیٹھ کر وائیں صاحب کی حکومت چلائی، اس لئے اب عمرا ن خان کا بھی استحقاق ہے کہ وہ دوسری ٹرم کے لیے منتخب ہو اور ا سکے لیئے پہلی شرط یہ ہے کی پی پی پی اور ن لیگ ایک ایک بار پانچ سال کی آئینی ٹرم پوری کر چکی ہیں۔ ان دونوں پارٹیوںنے ستر سے لے کر اب تک وقفے وقفے سے حکومت چلائی اورآج ملک کا جو ستیا ناس ہو چکا ہے وہ ان کے با برکت ہاتھوں سے ہوا۔بربادی کا عالم یہ ہے کہ نواز شریف کا خاندان پائوں کی چوٹ سے لے کر دل کے عارضے کے لئے لندن سے علاج کرواتا ہے انہوںنے ملک میں اپنے دو ہسپتالوں سمیت کوئی ایک ایسا ہسپتال نہیں بنایا جہاں ان کا علاج ہو سکے۔ زرداری کو بھی علاج کی حاجت ہوئی تو وہ دوبئی کے ہسپتال میںجا داخل ہوئے تھے ۔ اب صفدرا عوان کوکرونا ہوا تو دنیا کا کوئی ہسپتال اس کو داخل کرنے کے لئے تیار نہیں تھا، اس لئے ا سے شریف سٹی ہسپتال میں قرنطینہ کرنا پڑا، ورنہ وہ بھی کسی چارٹرڈ فلائٹ سے لندن یاا مریکہ چلاجاتا۔
بھٹو امریکہ میںبر کلے میں پڑھا، بلاول نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی بس غریب ہاری طبقے کے بچے ٹات اسکولوں میں پڑھنے پر مجبور ہیںجاگیر اداروں کے پاس ایک ایک نہیں دو دو ذاتی ہوائی جہاز ہیں ۔ غریب کو سائیکل تک میسر نہیں، مگر لیپ ٹاپ ، آشیانہ،موٹر وے۔میٹرو بس یااورنج ٹرین کے نام پر قرضے لے لے کر غریب کی کمر دوہری کر دی گئی ہے اور قرض لینے والے پی پی پی اور ن لیگی لیڈروںنے کمیشن کی کمائی بیرون ملک منتقل کر دی اور عیاشی کے لیے مہنگے محلات خرید لئے جہاں وہ پیزے اور برگر کھاتے ہیں، ایک زمانے میں ایوان وزیر اعظم میں زرداری کے گھوڑے ہوا کرتے تھے جو پستے اور بادام کھاتے تھے اور غریب عوام کے بجلی کے بلوں سے یہ خرچہ کیا جاتا تھا ۔
نوازشریف نے ہر بجٹ میں ٹیکس بڑھائے یعنی مہنگائی کی۔ موبائل فون پر ا س قدر ٹیکس کہ عوام کا کچومر نکل گیاا ور لوگ کہنے پر مجبو رہوئے کہ اب تو سانس لینے پرٹیکس لگانے کی کسرباقی ہے۔
 اس کے مقابلے میں عمران خان کو خزانہ خالی ملا۔ آج یہ لبالب بھرا ہوا ہے اس میں ریکارڈ زرمبادلہ کے ذخائر ہیںیعنی بیس ارب ڈالر، جب عمران کو حکومت ملی تو ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا۔ 
پہلا سال گزرا ہی تھا کہ پھر کرونا نے آن لیا ساری دنیا میں کروڑوں لوگ اس قیامت کا شکار ہوئے مگرعمران خان کی حکمت عملی سے کرونا کو بھی قابومیں رکھا گیا اور دیہاڑی دار مزدور طبقے کی کمائی کے ذرائع بھی  کھلے رکھے گئے اور جو لوگ غربت اور افلا س کی نچلی سطح پر تھے ان کو تاریخی احساس پیکیج کے تحت بارہ بارہ ہزار روپے گھر پہنچائے گئے، جیسے ہی کورونا میں کمی واقع ہوئی تو کنسٹرکشن کا شعبہ کھول دیا گیا اور اپنا گھر اسکیم کے تحت دسمبر کے آخر تک لوگوںکو دعوت دی گئی کہ وہ قرض لیں یا اپنی جیب سے مکان بنائیں، ان سے منی ٹریل نہیںمانگی جائے گی، اس لئے اب تعمیرات کا کام عروج پر ہے اور  سیمنٹ کی سپلائی ملنا ،مشکل ہو گئی۔ 
پچھلے ماہ تک پچپن ارب کا سیمنٹ فروخت ہوا، کنسٹرکشن کے ساتھ تین درجن دیگر کاروبار بھی کھل جاتے ہیں۔ لاہور میں راوی ٹائون کے عظیم الشان منصوبے کاا علان ہو چکا، دیامیر بھاشہ جیسا دیو ہیکل ڈیم بن رہا ہے، منڈاڈیم بن رہا ہے سی پیک اپنے کلائی میکس پر ہے،۔ گوادر کی بندر گاہ امریکہ اور بھارت کو کھٹکتی ہے مگرمکمل ہونے کو ہے، مغربی روٹ پر این آٹھ تیزی سے مکمل کیا جا رہا ہے۔
بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کر رہے ہیں اور ہماری برآمدات میںمسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے،پاکستانی لیبر جسے خدشہ تھا کہ اسے خلیجی اور یورپی ممالک سے نکال دیا جائے گا مگر اب ثابت ہوا کہ اللہ کے فضل سے پاکستانی لیبر کرونا کا مقابلہ قدرتی طور پر کر سکتی ہے ا سلئے اس کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ کراچی اسٹاک ایکس چینج پچیس سال کی ریکارڈ سطح کو عبورر کر چکا ہے، تمام معاشی اشاریئے مثبت ہیں اور تکلیف کا وقت ختم ہوا اب تو عوام کے لئے آسائش اور سہولت کا دور شروع ہو چکا ہے۔ اس لئے یہ وقت مناسب ہے کہ قومی سطح پر سیکنڈ ٹرم فار عمران خان کی مہم شروع کی جائے،اسے ایک الیکشن مہم کی طرح پر منظم کیاجائے، سینوں پر بیج آویزاں کئے جائیں۔ سڑکوں کے کنارے بل بورڈ کھڑے کئے جائیں اور یہ سارا کام عوام خود کریں یا پی ٹی آئی کرے۔ 
عمران خان نے اپنے ابتدائی عرصے میں اس قدر کارنامے انجام دیئے ہیں کہ شریف خاندان یابھٹو خاندان پچاس برس میںبھی نہیں کر سکا۔عمران خان نے ایک ٹرم اور گزارلی تو سنگا پور کے لی کوان یو اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد بن کر پاکستان کو بام عروج تک لے جائیں گے۔ اس کے لئے قوم نعرہ لگائے کہ سیکنڈ ٹرم فار عمران خان۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن