تجزیہ: محمد اکرم چودھری
متحدہ اپوزیشن اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ آئندہ چند ماہ ملکی سیاست میں نہایت اہم ہیں۔ میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے مابین کئی اہم ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف رہا ہے کہ نون لیگ پہلے پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائے جبکہ نون لیگ کا موقف رہا ہے کہ پیپلز پارٹی سینٹ میں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے واضح موقف اختیار کرے۔ دونوں جماعتیں اسی موقف کے ساتھ سیاست کرتی رہی ہیں لیکن اب دونوں جماعتیں تیسرے اور درمیانی راستے کے حوالے سے بات چیت کر رہی ہیں۔ اب متحدہ اپوزیشن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق برقرار رہا تو مارچ میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جا سکتی ہے۔ ایسا ہونا مشکل ہے کہ تئیس مارچ کے لانگ مارچ کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو یقین ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی صورت میں پاکستان تحریک انصاف کے بیالیس سے چون ارکان قومی اسمبلی ان کا ساتھ دیں گے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کا اچانک منظر عام پر آنا، متحرک اور پراعتماد ہونا بلاوجہ یا معمولی نہیں ہے۔ اسی طرح فریال تالپور کی وطن واپسی پچیس دسمبر کو طے تھی لیکن وہ بھی انیس دسمبر کو وطن واپس پہنچ گئیں۔ یہ ساری چیزیں نشاندہی کرتی ہیں کہ ملکی سیاست میں کیا تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں کو بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کی حمایت کا یقین آنے والے دنوں میں ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرے گا۔