شرح سود میں غیرمتوقع اضافے سے ملک پر قرضوں کے بوجھ میں تین سو ارب روپے تک اضافہ ہو جائیگا اور پانچ فیصد شرح ترقی کا ہدف محض ایک بے تعبیر خواب ثابت ہوگا۔ موجودہ حکومت نے دو سال پہلے بھی افراط زر اور مہنگائی پر قابو پانے کیلئے شرح سود بڑھانے کا تجربہ کیا تھا لیکن اس میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے کپاس کی کاشت میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے جس کے باعث پاکستان دھاگہ اور دیگر خام مال درآمد کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ کاشت کاروں نے کپاس کی فصل میں زیادہ منافع نہ ہونے کی وجہ سے دوسری فصلیں اگانا شروع کر دی ہیں۔
15 نومبر تک ملک میں کپاس کی مجموعی پیداوار 68 لاکھ 50 ہزار گانٹھیں ریکارڈ کی گئیں جو ملک میں کپاس کی پیداوار میں 70 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ کپاس کی کٹائی کرنیوالوں کی ایک نمایاں تعداد ملرز پر مشتمل ہے جو ٹیکس بچانے کیلئے درست اعداد و شمار ظاہر نہیں کرتے یہ توقع کی جارہی ہے کہ کپاس کی مجموعی پیداوار 90 لاکھ 70 ہزار گانٹھیں ہوں گی جس میں سے 51 لاکھ 48 لاکھ گانٹھیں پنجاب میں پیدا ہوں گی۔
موجودہ دور حکومت میں ادویات کی قیمتوں میں اب تک کم و بیش تین بار اضافہ ہو چکا ہے۔ متاثرین کی بڑی تعداد شوگر اور بلڈ پریشر والوں کی ہے۔ گزشتہ دو برس کے دوران 102 ادویات کی قیمتوں میں 311.61 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ لیبارٹری ٹیسٹ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ ہر امیر غریب کو پرائیویٹ لیبارٹریوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ صبح سرکاری ہسپتال میں رش سے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی لاری اڈہ ہو۔ ڈاکٹروں نے الگ اپنی فیسیں بڑھا دی ہیں۔
اپریشن فیئر پلے جیکال نائٹس بہت ہو چکے‘ اپوزیشن بتائے کہ آئی ایم ایف سے کیسے نکلیں گے۔ ملکی وسائل کا استعمال کیسے کریں گے‘ 60 فیصد آبادی یعنی جوانوں کو کیسے مصروف رکھیں گے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے کیا منصوبے ہیں۔ دفتری نظام رشوت خور کلرکوں کے ہاتھ سے کیسے نکلے گا۔ علاج معالجے کے کیا انتظامات ہونگے۔ حکومت اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ ریاست اپنی مالی اور مالیاتی خودمختاری آئی ایم ایف کے پاس رہن رکھنے پر مجبور ہے۔ حکومتی دعوئوں پر عوام اس لئے حیران ہیں کہ اگر محصولات‘ صنعتوں کی پیداوار‘ تجارتی سرگرمیوں اور بیرون ملک سے ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہوا ہے تو اسکے ثمرات ان تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے؟
حکومت سبسیڈیز بحال اور عام آدمی پر عائد ٹیکسوں کا خاتمہ کرے۔ کوریا‘ چین‘ بھارت‘ بنگلہ دیش اور ویت نام نے ایس ایم ایز کی گروتھ سے ترقی حاصل کی ہے۔ پاکستان میں ایس ایم ایز کا جی ڈی پی میں حصہ 40 فیصد ہے جو ملک میں 80 فیصد ملازمتیں فراہم کررہا ہے جبکہ یہ سیکٹر چین میں 82 فیصد اور بھارت میں 35 فیصد ملازمتیں فراہم کرتا ہے۔ پاکستانی ایکسپورٹس میں ایس ایم ایز کا حصہ 26 فیصد‘ بھارت کا 40 فیصد‘ چین کا 68 فیصد اور جاپان کا 38 فیصد حصہ ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹے اور درمیانے درجے کی 33 لاکھ صنعتیں ہیں۔ پاکستان میں ایس ایم ایز کی گروتھ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ بنکوں کا انہیں بغیر کچھ گروی رکھے قرضے نہ دینا ہے۔
ہمارے گیس کے ذخائر میں کمی سے اب گیس کی طلب و رسد میں توازن قائم رکھنا مشکل تر ہوتا جائیگا۔ ہمیں ایران یا وسط ایشیا کے ممالک سے توانائی کے فوری حصول کے ساتھ ساتھ توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف آنا ہوگا۔ سی این این اور آر ایل این جی کی موجودہ قیمت میں دس سے پندرہ روپے تک کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ جی ایس ٹی میں اضافہ کی وجہ سے ہوا ہے۔ ساڑھے بارہ سو میں ملنے والے سلنڈر کی قیمت دو ماہ میں ڈھائی ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔
حکومت گیس‘ بجلی‘ پٹرول‘ مٹی کے تیل اور ڈیزل کے نرخوں میں اضافہ روکے۔سرکاری لنگر خانے کھولنے یا ماہانہ ایک ہزار روپے دینے سے بائیس کروڑ آبادی کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ہر علاقے میں راشن ڈپو کھولے جائیں‘ یوٹیلٹی سٹورز بدعنوانی کے حوالے سے ملک کے طول و عرض میں شہرت پا چکے ہیں۔ ہر شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبات کے سامنے کب تک گردن جھکاتے رہیں گے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بجائے کوئی دوسرا راستہ تلاش کیا جائے۔ ہمارا ٹیکس نظام پیچیدہ ہے۔ یہی ٹیکس گزار بننے سے روکتا ہے۔ حکومت کو پانچ ہزار روپے کے کرنسی نوٹ بند کردینے چاہئیں۔