اندرا گاندھی 1971ء کی جنگ پر ڈی کلاسیفائڈ دستاویزات جو چند سالوں بعد امریکیوں نے جاری کیں، اس کو ہنری کسنجر نے زیادہ تفصیل سے اپنی کتاب’ ایرز آف اپہیول‘ میں بیان کیا ہے کہ اندرا گاندھی سولہ دسمبر کے بعد انتہائی تیزی سے مغربی پاکستان میں آزاد کشمیر پر حملے کا حکم دے چکی تھیں تا کہ کشمیر پر قبضہ کر کے اس کا قضیہ ہمیشہ کیلئے ختم کیا جا سکے اور مشرقی فرنٹ سے وہ اپنی فوجیں لانے میں انتہائی عجلت میں تھیں لیکن اس وقت امریکی صدر نکسن نے اپنے وزیر خارجہ کو روسی وزیر خارجہ اور روسی صدر برزنیف کو پہلی دفعہ ہاٹ لائن پر اندرا گاندھی کو روکنے کی دھمکی دی ۔ یا درہے یہ ہاٹ لائن بڑی طاقتوں کے درمیان انتہائی نازک حالات میں استعمال ہوتی ہے اور مشرقی پاکستان کے مسئلے پر یہ ہاٹ لائن پہلی دفعہ استعمال ہوئی تھی۔اور آٹھ دسمبر کو آئندہ ہونیوالی روس امریکا سربراہی ملاقات کو کینسل تک کر نے کا کہا جبکہ اس سے پہلے چھہ دسمبر کو بھیجے گئے پیغام کا ابھی روس کی طرف سے جواب نہیں موصول ہوا تھا۔ لیکن نو دسمبر کو برزنیف نے صرف جنگ بندی کی سابقہ پالیسی دہرائی، یہی بات مسٹر ،جاہ ، انڈین سفیر برائے امریکا نے امریکی عہدے دار کو دہرائی جس کا مطلب یہ تھا کہ مغربی پاکستان پرحملہ نہ کر نے کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی۔بارہ دسمبر تک سورن سنگھ ، انڈین وزیرخارجہ آزاد کشمیر کو چھوڑ کر باقی پاکستان پر اپنے کسی قبضے کی خوہش کی نفی کر رہے تھے۔لیکن آزاد کشمیر پر حملہ نہ کرنے کے بارے میں کوئی یقین نہیں کرا رہے تھے کسنجر لکھتے ہیں کہ انڈیا کو تنبیہہ کرنیوالی کیبلز بھی انڈیا کو وائٹ ہائوس انکی لابی کی وجہ سے امریکی سفیر برائے انڈیا ، کیٹنگ ،کودیر سے پہنچ پاتی جبکہ پاکستان کو جلدی کیبلز ملتی تھیںلیکن اندرا گاندھی تلی ہوئی تھیں اور بقول کسنجر ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ کوئی پاکستانی لیڈر اندرا گاندھی کے قد کاٹھ کا نہ تھا اندرا گاندھی سرعت سے چاہتی تھیں کہ پاکستان کی بے بسی عالمی تنہائی سے بے رحمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے آزاد کشمیر پر حملہ سے انڈیا میں شامل کر لیا جائے ،اور باقی حصے بلوچستان، سرحد کو علیحدہ کر کے چار حصوں میں توڑ دیا جائے اور بعد ازاںخود ہی یکطرفہ جنگ بندی کی جائے ، اس تمام بحران میں امریکا کو پاکستان سے فوری سٹریٹیجک مفاد نظر نہیں آیا سوائے انکے اپنے عالمی ضروری مفادات کہ جس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے دیوالیہ پن کا کھلااظہار ہوتا ہے ۔ ہاٹ لائن میں روس کو امریکا کے ساتھ کے ویتانت کو ختم کر نے اور روس امریکا سربراہ کانفرنس ملتوی کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ روس ان حالات میں جبکہ امریکا چین کے ساتھ گہرے تزویراتی تعلقات استوار کر رہا تھا ،اور کمیونسٹ دنیا میں چین اور روس ایک دوسرے کے جانی دشمن بن چکے تھے، امریکا کی سپر پاور کی طاقت کو قطعا نظر انداز نہیں کرنا چاہ رہا تھا لیکن روسی قیادت کے کہنے کے باوجود، اندرا گاندھی مغربی پاکستان پر حملے سے پیچھے نہیں ہٹیں۔ پھر امریکی صدر کے ایک اور پیغام میں جس میں سترہ دسمبر کی تاریخ تک انڈین فوجوں کو مغربی پاکستان پر حملہ نہ کر نے کی روس سے گارنٹی مانگی تھی تو پھر روسی صدر برزنیف نے اپنے نمائندے،،کز نیٹسو،، کو خصوصی احکامات کے ساتھ بیجا لیکن اندرا گاندھی پھر بھی اس روسی ایلچی کی بات مانے میں لیت و لعل سے کام لے رہی تھیں۔ حتی کے روس نے بھی عالمی جنگ کے شروع ہونے کے خطرہ کی ذمہ داراندرا گاندھی کو قرار دیا جبکہ امریکی سیونتھ فلیٹ بحیرہ عرب میں بھیجنے کا حکم امریکا نے صرف انڈیا کو روکنے اور اگر انڈیا مہم جوئی سے باز نہ آیا تو روس کو انڈیا کی پشت پناہی سے روکنے کیلئے تھا۔ قارئین، ایسی صورتحال میں ہمیں ایک قدم رک کر جنرل یحییٰ خان کی نااہلی کج فہمی کمزور ترین دفاع اور مشرقی پاکستان میں بھی صرف ڈھاکا کو بچانے میں زور ، نہ کہ اتنی زیادہ تعداد میں افواج کو گوریلا جنگ کی حکمت عملی کے تحت جنگ کو طول دینے میں کچھ دن ہی حاصل کر لیتا، تو یواین او، سے امریکا تک کسی نہ کسی طرح زمینی جنگی حالات کی وجہ بنا کر انڈیا کو جنگ بندی سے روکنے میں کامیاب ہو جاتے۔ اردگرد ممالک ،برما ، نیپال وغیرہ کے بنگلہ دیش سے ملحقہ بارڈرز پر ہر طرف پاکستانی فوج کو گوریا طرز پر لڑایا جا سکتا تھا بصدحیف، جنرل یحی ، داخلہ ،خارجہ پالیسوں میں تو ناکام ہوا ہی، ایک جنرل کے طور پر سب سے زیادہ نااہل ثابت ہوا۔ اس کیلئے جرات رندانہ، بڑے دل گردہ کی ضرورت تھی، اتا ترک اور ابراہام لنکن جیسے جنگجو کی ضرورت تھی جو پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی طرف سے لڑتے ہوے انگریزوں کیخلاف گیلیپولی میںہاری ہوئی جنگ میں فتح اور لنکن بے سروسمانی کی حالت میں امریکی خانہ جنگی میں امریکی سالمیت کو بچانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اسی لئے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ،، ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے ، بڑ مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا،، کاش ان سالوں، ان لمحوں میں ہم صدیوں کی خطا نہ کھاتے اگر ہمارے ہاں بھی کوئی حریت پسند لیڈر ہوتا ۔کوئی جنرل رومیل ہی ہوتا ۔کوئی ڈیگال ہی ہوتا،کوئی ہوچی من ہی ہوتا ۔ہم پچپن ہزار کلومیٹر علاقے کو صرف تیرہ دن بھی نہ ہولڈ کر سکے اور پلیٹ میں رکھ کر دشمن کے حوالے کر دیا۔