غالب :حرف ومعانی کا استعارہ

علامہ ضیاء حسین ضیاء غالب کی زندگی کے بارے میں لکھی ایک اہم تحریر میں لکھتے ہیں۔
مرزا اسد اللہ خان غالب اردو شاعری کی جدت وجودت کا ایسا معیار ہیں جن کو مغربی ادب کے مقابلے میں علامتوں اور حسیات نگاری کی متوقع اور غیرمتوقع صورتوں کے مقابل سمبل کے طور پر پیش کیاجاسکتاہے، انکی اعلیٰ قدر شاعری کے ساتھ انکی زندگی پراسرار راہداریوںمیںنکلتی اور ادلتی بدلتی نظرآتی ہے۔ سوغالب پر تحقیق کا در کبھی بند نہیں ہوا۔ غالب پرستوں میں ممتاز محقق جناب پرتوروہیلہ کا ایک ممتاز مقام ہے، روہیلہ نے جب بھی نقش غالب کا کوئی پہلو ابھارا توپھر غبار پھاڑ کر راستہ آئینہ کردیا۔ اس بار وہ غالب کی زندگی کے تین اہم فیصلوں پر بات کرنے آئے ہیں جن سے غالب کی شاعری اور شاعر کی شخصیت کے مضمرات کی کشافی ہوتی ہے، اہم ترین فیصلوںمیں سب سے دقیع فیصلہ اسلوب بیدل کوترک کرکے آسان گوئی کا فیصلہ ہے، دوسرا فیصلہ وہ ہے جو انہوں نے کلکتے جاتے ہوئے لکھنوکے قیام کے دوران آغامیر سے ملاقات کیلئے اپنی چند شرائط پیش کرکے کیا اور تیسرا فیصلہ وہ ہے جو انہوں نے دہلی کالج کی مدرسی سے انکار کی صورت میں کیا۔ پرتوروہیلہ نے غالب کے ان فیصلوں کے عوامل کا سراغ لگانے میں استناد کونہیں چھوڑا اور جس طرح وہ اس مضمون میں آراستہ اور روانہ ہوتے نظرآتے ہیں وہ ایک عمدہ طریق ہے، غالب پرستوں کیلئے یہ مضمون ایک یادگار تحریرہے۔غالب کی زندگی پیدائش سے لیکر انکی موت تک ہنگاموں سے لبریز رہی۔ قدم قدم پر وہ ایسے شدید حالات سے دوچار ہوئے جہاں انہیں سلیم الطبعی کے اظہار کے ساتھ قوت فیصلہ کے استعمال کی بھی شدید ضرورت ہوتی۔سواگر ا نکی پرآشوب زندگی کا احاطہ کیاجائے تو ایسے مواقع ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ضرور ہونگے جو ان کیلئے بہت اہم تھے، اب اگر ان سینکڑوں اہم واقعات سے اہم ترین منتخب کئے جائیں تومیری نظرمیں وہ یہی تین ہیں اور وہ اس لیے نہیں کہ ان سے مقابل ہوکرغالب نے انتہائی ہوشیاری اور سلیم الطبعی کا اظہارکیا بلکہ اس کیلئے کہ اس وقت کے حالات سے دوچار ہوکرغالب نے جو فیصلے کئے وہ اتنے اہم، اثرانگیز اور دوررس تھے کہ انہوں نے نہ صرف غالب کی زندگی کا رخ بدل دیا بلکہ اردو ادب کی تاریخ پر بھی نہ مٹنے والے نقوش مرتب کر دیے۔ ظاہر ہے کہ ان تینوںفیصلوںمیں پہلا فیصلہ تو خالصتاً ادبی ہے یعنی جس کا تعلق غالب کی ادبی شخصیت اور ان کی ادبی اقدار سے ہے جب کہ باقی دونوںفیصلے غالب کی معاش سے تعلق رکھتے ہیں اور اگرچہ فیصلوںکی اپنی بنیاد سماجی اور اخلاقی اقدار پر کیوں نہ ہو ان کے نتائج لازماً معاشی تھے۔ زیر نظرمضمون میں ان عوامل پر ہی بات ہوگی جو ان پر تینوں فیصلوں کا باعث ہوئے۔
عبدالصمد(ہرمزد)کا غالب کی زندگی میں آنا ایک اتفاق بلکہ حسن اتفاق سہی لیکن دس گیارہ سال کی عمر میں انکی شاعری کی طرف میلان اورپھر ظہوری اور بیدل جیسے فارسی شعراء کی طرف رغبت تو لازمی انکے فطری رجحانات تھے۔ جن سے خود ان کیلئے کوئی مفر نہیں تھا۔ اس لیے جب غالب مبداء فیاض کی بات کرتے ہیں تو غلط نہیں کہتے۔ ورنہ ہونا تویہ چاہیے تھاکہ عبدالصمد کے زیراثر انہوں نے آگرے ہی میں فارسی شاعری بھی شروع کردی ہوتی جبکہ فارسی شاعری پر انہوں نے تقریباً کلکتے کے سفر کے دوران زور دیا۔ سوکلکتے کے قیام کے دوران سراج الدین احمد کے ایما پر انہوں نے گل رعنا کا انتخاب کیا اور اپنے اردوکلام سے دوثلث نکال ڈالے تو یہ اس دیوان سے تھا جو سفرکلکتہ سے پہلے مرتب ہوچکا تھا۔یہاں غالب یہ نہیں بتاتے کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیںالبتہ وہ دیپاچہ گل رعنامیں اتناضرور فرماتے ہیںمیں نے اردو گوئی میں بھی وہی طریقہ روا رکھاہے جو فارسی میں روا رکھاہے۔ میری شاعری کے دو دروازے ہیں ایک اردو اور ایک فارسی۔
صحیح المذاق دوستوں کی روک ٹوک کے ضمن میں حالی کہتے ہیں۔ جب مولوی فضل حق سے مرزا کی راہ ورسم بہت بڑھ گئی اور مرزا ان کو اپنا مقام خاص ومخلص دوست اورخیرخواہ سمجھنے لگے تو انہوں نے اس قسم کے اشعار پر روک ٹوک کرنی شروع کی۔ یہاں تک کہ انہیں کی تحریک سے انہوں نے اپنے اردوکلام میں سے جو اس وقت موجود تھادوثلث کے قریب نکال ڈالا اور اس کے بعد اس روش پر چلنا بالکل چھوڑ دیا۔ ذکرغالب میںمالک رام صاحب نے مولوی فضل حق ہی کا ذکر کیاہے لیکن سوانح نگار مولوی فضل حق کے ساتھ آزردہ اور شیفتہ کوبھی شامل کرتے ہیں۔شامل ہی نہیں کرتے بلکہ برابرکاشریک تصورکرتے ہیں۔ چنانچہ نتالیا پرگانا اپنی مشہور تصنیف غالب میں تحریرکرتی ہیں۔ بہت سوں کاخیال ہے کہ اگر فضل حق نہ ہوتے تو غالب کے حق میں میرکی یہ پیش گوئی کہ کامل استاد نہ ملنے کی صورت میں یہ لڑکامہمل بکنے لگے گا، سچی بات ثابت ہوئی، غالب کے اسلوب کے تعلق سے ایسی سخت گیری کا مظاہرہ کرنے میں فضل حق اکیلے نہیں تھے، آزردہ جیسے سخن سنج اور سادگی کے شیدا نے بھی غالب کو اظہار خیال کے دوسرے وسائل کی تلاش کی ترغیب دی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...