غلام ز.ہرا
ghulamzahira@yahoo.com
فن گائیکی کا انمول سرمایہ، دلکش اور سریلی آواز کی مالک برصغیر کی معروف گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں،موسیقی کا ایک درخشاں باب تھیں۔نور جہاں کا شمار جنوبی ایشیا کی ان عظیم اور بااثر گلوکاروں میں ہوتا تھا جس کے سبب انہیں ملکہ ترنم کا لقب دیا گیا۔۔ نور جہاں نے اردو، ہندی زبانوں کے علاوہ پنجابی، سندھی اور فارسی زبان میں بھی گیت گائے اور آج تک لوگوں کے دل و ذہن میں تازہ ہیں۔انہوںنے مختلف زبانوں میں 10 ہزار سے زائد گیت گائے جو ایک ریکارڈ ہے۔انہوںنے 35 سالوں تک اپنی گلوکاری کے سبب فلم انڈسٹری پر راج کیا۔نور جہاں نے پلے بیک سنگر کے علاوہ غزل گائیکی میں بھی اپنا ایک الگ نام اور مقام بنایا، جس کے سبب انہیں پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔
اس نام ور گلوکار اور فلمی اداکار کا اصل نام اللہ وسائی تھا۔ وہ محلہ کوٹ مراد خان، قصور میں پیدا ہوئی تھیں۔انہوں نے اپنے فنی کیرئر کا آغاز 1935 میں بطور چائلڈ اسٹارکیا۔ 1939 میں پنچولی کی موسیقی میں بننے والی فلم گل بکاؤلی کی کامیابی کے بعد نور جہاں فلم انڈسٹری کی مشہور شخصیت بن گئیں۔1941 میں موسیقار غلام حیدر نے انھیں اپنی فلم خزانچی میں پلے بیک سنگر کے طور پر متعارف کروایا۔ 1941 میں ہی بمبئی میں بننے والی فلم خاندان ان کی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔فلم خاندان میں ان پر فلمایا گانا کون سی بدلی میں میرا چاند ہے آجا سامعین کے درمیان کافی مقبول ہوا۔ فلم خاندان کامیابی کے بعد نور جہاں نے فلم ڈائریکٹر شوکت حسین سے شادی کر لی اور ممبئی آ گئیں۔ اس دوران نور جہاں نے شوکت حسین کی ہدایت کاری میں نوکر، جگنو جیسی فلموں میں اداکاری کی۔
ملکہ ترنم نے صرف اردو اور پنجابی میں ہی گیت نہیں گائے بلکہ غزل گائیکی میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ میڈم نور جہاں الفاظ کی ادائیگی اور سروں کے اتار چڑھا میں کمال رکھتی تھیں۔نور جہاں اپنی آواز کے ساتھ نئے تجربات کرتی رہتی تھیں۔ اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے وہ ٹھمری کی ملکہ کہلانے لگیں۔ اس دوران نور جہاں کی دوہائی، دوست، اور بڑی ماں جیسی کامیاب فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان فلموں میں ان کی آواز کا جادو سامعین کے سر چڑھ کربولا۔ اس طرح نور جہاں بمبئی فلمی صنعت میں ملکہ ترنم کہلائی جانے لگیں۔
1945 میں نور جہاں کی ایک اور فلم زینت ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی ایک قوالی آہیں نہ بھریں شکوے نہ کئے، کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا سامعین میں کافی مقبول ہوئی۔ نور جہاں کو 1946 میں فلمساز و ہدایت کار محبوب خان کی فلم انمول گھڑی میں کام کرنے کا موقع ملا۔عظیم موسیقار نوشاد کی ہدایت میں نور جہاں کا گایا ہوا گیت آواز دے کہاں ہیں، آجا میری برباد محبت کے سہارے، جواں ہے محبت کافی مقبول ہوئے جن کا جادو آج بھی برقرار ہے۔
قیامِ پاکستان سے پہلے نورجہاں کی جو فلمیں مشہور ہوئیں ان میں لال حویلی، بڑی ماں، نادان، نوکر، زینت، انمول گھڑی شامل ہیں۔ تقسیم کے بعد انھوں نے پاکستانی فلم چن وے میں کام کیا۔ وہ اس فلم کی ہدایت کار بھی تھیں۔ بعد میں گلنار، دوپٹہ، پاٹے خان، لختِ جگر، انتظار، نیند، کوئل اور دیگر فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اس کے بعد انھوں نے اداکاری سے کنارہ کرلیا اور گلوکاری تک محدود ہوگئیں۔ انھوں نے لگ بھگ 995 فلموں کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے جن میں آخری فلم گبھرو پنجاب دا تھی جو 2000 میں ریلیز ہوئی تھی۔
1947 میں تقسیم ہند کے بعد نور جہاں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ فلم اداکار دلیپ کمار نے جب نور جہاں سے ہندوستان میں ہی رہنے کے لئے کہا تو نور جہاں نے کہا تھا کہ میں جہاں پیدا ہوئی ہوں، وہیں رہوںگی۔ پاکستان آنے کے بعد بھی نور جہاں نے فلموں میں کام جاری رکھا۔تقریبا تین سال تک پاکستان فلمی صنعت میں خود کو قائم کرنے کے بعد نور جہاں نے فلم چن وے کی فلمسازی اور ہدایت کاری کی۔ اس فلم نے باکس آفس پر اچھی کمائی کی۔ اس کے بعد 1952 میں آئی فلم دوپٹہ نے فلم چین وے کے باس آفس ریکارڈ کو بھی توڑ دیا۔فلم دوپٹہ میں نور جہاں کی آواز سے آراستہ نغمے سامعین کے درمیان اس قدر مقبول ہوئے کہ نہ صرف اس نے پاکستان میں بلکہ ہندوستان میں بھی دھوم مچادی۔ آل انڈیا ریڈیو سے لے کر ریڈیو سلون پر نور جہاں کی آواز کا جادو سامعین پر چھایا رہا۔ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز سامعین پر سحر طاری کر دیتی تھی ان کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر پہچان کروائی۔
1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی بہادرافواج نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ ہرکوئی اپنے اپنے انداز میں وطن عزیز کے لیے قربانی دینے کو بے قرارتھا۔اس دوران فنکاروں اور گلوکاروں کا کردار بھی قابل دید رہا،اس جنگ میں ملکہ ترنم نور جہاں کو سب سے زیادہ ملی ترانے ریکارڈ کرانے کا اعزاز حاصل ہوا،جنگ کے پرجوش لمحات میں ملکہ ترنم نور جہاں کے گیت نشر ہوتے تو میدان جنگ میں لڑنے والے پاک افواج کے جوانوں کے حوصلے بلند ہوجاتے، ساتھ ہی عوام پر بھی وجد طاری ہوجاتااور ہر کوئی میدان جنگ کی طرف چل دیتا۔
سانگ میرا ماہی چھیل چھبیلا، ہائے نی کرنین نی جرنیل نی، زندہ ہے لاہور پائندہ ہے لاہور اے پتر ہٹاں تے نیں وکدے توں لبدی پھریں بازار کڑے ملکہ ترنم نے اپنے ملی نغموں سے جارح بھارتی فوج کو وطن کی حفاظت کرتی ہوئی غیور قوم کا پیغام دیا۔ سیالکوٹ تو زندہ رہے گا تو زندہ رہے گا، میرا سوہنا شہر قصور نی اے میریا ڈھول سپاہیا وے تینوں رب دیاں رکھاں۔ انیس سو پیسنٹھ کی پاک بھارت جنگ میں جہاںان کے قومی نغموں نے دلوں کو گرمایا اور آج بھی یہ نغمے لوگوں کے دلوں میں ان کی یاد کو تازہ کیے رکھتے ہیں۔ میڈم نور جہاں کی آواز میں گونجنے والے یہ ملی نغمے آج بھی اسی قومی جوش و جذبے اور ہمت و بہادری کی یاد دلاتے ہیں جن کے بول تھے اے وطن کے سجیلے جوانو، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
محمداعظم خان ان دنوں ریڈیو پاکستان لاہور میں میوزک پروڈیوسر تھے۔ ان کے مطابق 6 ستمبر1965 کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو سٹیشن ڈائریکٹر شمس الدین بٹ نے فوجی بھائیوں کے لئے نغمے اور ترانے ریکارڈ کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپ دی اور میں اس کو اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتا ہوں۔ 8 ستمبر کو ملکہ ترنم نور جہاں نے بٹ صاحب کو فون کیا اور اپنی خدمات پیش کیں۔ صوفی غلام مصطفی تبسم ان دنوں ریڈیو پاکستان لاہورمیں سٹاف آرٹسٹ تھے۔ اس لئے فوجی بھائیوں کے لئے زیادہ تر نغمے اور ترانے انہوں نے لکھے جو ملکہ ترنم نورجہان نے گائے اور میں نے ریکارڈنگ کی۔صوفی تبسم ریڈیو سٹیشن ہی میں فوجی بھائیوں کے لئے نغمے اور ترانے لکھتے تھے۔ کمپوزنگ کے بعد میں ان کی ریکارڈنگ کرتا تھا۔صوفی صاحب نے یہ ترانہ لکھ کر دیا۔ ایک روز میرے پاس کوئی اچھا ترانہ نہیں تھا۔ میں نے صوفی تبسم صاحب سے کہا کہ میڈم نور جہاں قصور کی رہنے والی ہیں۔ قصور سیکٹر پر بھی لڑائی ہو رہی ہے تو آپ قصور کے بارے میں نغمہ لکھ دیں۔ انہوں نے یہ نظم لکھ کر دی۔میرا سوہنا شہر قصورنی ایہدیاں دھماں دور دور نی
جب ہمارے سپاہیوں کی لاشیں سی ایم ایچ میں آنا شروع ہوئیں تو صوفی صاحب نے لکھاایہہ پتر ہٹاں تے نہیں وکدے کیہہ لبھنی ایں وچ بزار کڑے
بقول محمداعظم خان جب یہ نغمہ ریکارڈکرکے ہم سٹوڈیو سے باہر آئے تو میڈم نور جہاں صوفی تبسم اور میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ محمداعظم خان نے بتایا کہ ریڈیو کی طرف سے ہم سی ایم ایچ میں زخمی فوجی بھائیوں کو ملنے گئے۔ انہیں پھول پیش کئے اوران کی صحت یابی کی دعا کی۔ ایک فوجی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ اس نے کہا کہ دعا کرو میں جلد صحت یاب ہوجاں۔ محاذ جنگ پر جانا چاہتا ہوں خواہ میری دوسری ٹانگ بھی کام آ جائے اس وقت یہ جذبہ تھا۔ میڈم نور جہاں عظیم خاتون تھیں۔ مجھے65 کی جنگ کے دوران ان کے ساتھ کام کرنے اور قریب رہنے کا موقع ملا۔ سارا دن وہ ریڈیو سٹیشن رہتیں۔ ان کے لئے چائے پانی کا اہتمام بھی میں کرتا تھا۔ میڈم نورجہاں نے مجھے کہااعظم خان صاحب ! میں کمرشل آرٹسٹ ہوں۔ فلموں کے لئے گیت گاتی ہوں۔ فوجی بھائیوں کے لئے نغمے اور ترانے گوا کرآپ نے مجھے ہیرو بنا دیا۔ میں یہ لمحات زندگی بھر نہیں بھول سکتی۔ ہوائی حملے کا جب سائرن ہوتا تو ریڈیوسٹیشن میں موجود تمام لوگ ریڈیو سٹیشن کے لان میں کھودی گئی خندق( Trench) میں چلے جاتے۔ مگر میڈم نور جہان سٹوڈیو یا میرے کمرے میں ہی رہتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مرنا تو ایک دن ہے۔ میں سٹوڈیو چھوڑ کے نہیں جاسکتی۔ میڈم نور جہاں کی بیٹی ظلِ ہما ان دنوں چھوٹی تھی۔ وہ گھر سے اپنی ماں کو فون کرتی ہیں کہ مما بمباری ہو رہی ہے گھر آجائیں۔ مگر وہ گھر جانے کے بجائے بیٹی کو حوصلہ دیتیں۔
1980 سے 1990 کی دہائی میں میڈم نور جہاں کے گانوں کو ہر فلم میں شامل کیا جانے لگا اور میڈم کے گانوں کو فلم کی کامیابی کی ضمانت تصور کیا جاتا تھا، میڈم نور جہاں کے چند مشہورپنجابی گانے۔ وے اک تیرا پیار مینوں ملیا، جھانجھر دی پاواں چھنکار، ماہی آوے گا میں پھلاں نال دھرتی سجاواں گی، میں تے میرا دلبر جانی۔ شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے انکی خدمات کو سراہتے ہوئے1957 میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارگردگی اور 1966 میں نشان امتیاز سے نوازا۔
میڈم نور جہاں نہایت ہی شفیق اور محبت کرنے والی خاتون تھیں وہیں وہ اپنی ذاتی زندگی کو نہ کسی سے چھپاتیں اور نہ ہی کسی سے ڈسکس کرتیں۔لوگوں نے ان کی ازدواجی زندگی کے بارے میں جو بھی لکھا انہوں نے کبھی بھی کسی چیز کی نہ تردید کی نہ تصدیق کی ۔دوستی نبھانے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا لیکن اگر کبھی دوستوں پہ غصہ ہوتا تو غصہ اتر جانے تک رابطے میں نہ آتیں، اسکی واضح مثال فریدہ خانم سے دوستی کی ہے، گہری دوستی ہونے کے باوجود اگر فریدہ خانم کی کسی بات پہ غصہ آجاتا تو ا نکو فون نہ کرتیں جب غصہ اترتا تو ہنستے ہوئے کہتیں مینوں پتہ سی میرا غصہ جدون ٹھنڈا ہونا اے میں آپے ای تیرے نال رابطہ کر لینا اے۔ فریدہ خانم سے ان کی دوستی فلم باجی کے سیٹ پر ہوئی یہ فلم ساٹھ کی دہائی میں بنی اس میں پہلی بار نور جہاں اور فریدہ خانم نے ایکساتھ گایا حالانکہ میڈم کا سکیل اونچا اور فریدہ خانم کا سکیل لو تھا لیکن ان دونوں کی گائیکی کو اس دور میں خاصی مقبولیت حاصل ہوئی، یہیں سے ان کی دوستی گہری ہوتی گئی اور مرتے دم تک رہی۔ میڈم بہت ہی حوصلے اور ہمت والی خاتون تھیں، دنیا سے رخصت ہونے سے تین ماہ قبل ستمبر2000 میں آخری سالگرہ منائی، اس میں اپنی فیملی کے علاوہ صرف انہوں نے پی ٹی وی سے خواجہ نجم الحسن، شمیم آرا، حسنہ، نگہت سلطانہ اور فریدہ خانم کو بلوایا، وہاں آئے لوگوں سے یہی کہا کہ طبیعت خراب تو بہت ہے، بس میرے لیے دعا کیجیے گا۔ ان کی گائیکی ہو یا ذاتی زندگی بہت سارے لوگوں نے بہت کچھ لکھا لیکن نورجہاں نے پلٹ کر کبھی کسی کو جواب دیا اور نہ ہی کبھی کسی کی جرات ہوتی کہ ان سے انکی ذاتی زندگی سے جڑے سوال پوچھ لیں۔ کلدیپ نا ئر سمیت دیگر شخصیات کا کہنا ہے کہ کسی نے ان کے سامنے نورجہاں سے پوچھا آپ نے اب تک کتنے گانے گائے ہیں تو انہوں نے جواب دیا میں نے نہ گانوں کا حساب رکھا ہے، نہ گناہوں کا اس حد تک بولڈ خاتون تھیں۔
اپنی خوبصورت شخصیت اوردلکش آواز اور اداؤں سے سب کو دیوانہ بنانے والی ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئیں۔ انہوں نے کہا تھا گائے گی دنیا گیت میرے ‘‘ اور سچ ہے کہ ان کی یاد ہمیشہ امداحوں کے دلوں میں زندہ رہے گی۔