اسلام آباد (نامہ نگار) پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی نے ڈی جی رینجرز اور آئی جی ایف سی نارتھ کی اجلاس میں غیرحاضری پر ناراض ہوتے ہوئے آرمی چیف سے شکایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز منعقد ہوا۔ پی اے سی کمیٹی نے ڈی جی رینجرز کی غیر حاضری کے باعث رینجرز کے پیراز لینے سے انکار کر دیا۔ چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ رینجرز کے پیراز انتہائی تشویش والے ہیں لیکن ڈی جی رینجرز نہیں آئے، ڈی جی رینجرز، آئی جی ایف سی نارتھ کی غیر حاضری پر آرمی چیف کو آگاہ کیا جائے۔ پی اے سی کی جانب سے سیکرٹری داخلہ پر بھی اظہار ناراضی کرتے ہوئے طلبی کا نوٹس جاری کیا۔ گیا۔دریں اثنا اجلاس میں پاک افغان سرحد پر کشیدگی، فائرنگ اور افغان فورسز کی گولہ باری سے پاکستانیوں کی شہادت کے معاملات بھی زیر بحث آئے۔کمیٹی کے رکن مشاہد حسین سید نے کہا کہ امریکی ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں 95ہزار جدید ترین بندوقیں چھوڑ گیا۔ امریکا کی افغانستان میں چھوڑی گئی جدید بندوقیں ٹی ٹی پی تک کیسے پہنچیں؟ یہ گنز نائٹ ویژن بھی رکھتی ہیں۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی میں اسلام آباد کے شہریوں سے زائد ڈومیسائل فیس لینے کا انکشاف ہوا ہے۔ آڈٹ حکام کے مطابق شہریوں سے 200 کے بجائے 700روپے فیس لی گئی، کمیٹی نے اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے اضافی ڈومیسائل فیس لئے جانے کے معاملے پر ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ہدایت کر دی جبکہ چیئرمین نادرا، آئی جی اسلام آباد پولیس اور ٹریفک پولیس حکام کی غیر حاضری پر اظہار برہمی کیا اور نادرا سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لینے سے انکارکیا۔ چیئرمین کمیٹی نے چیف کمشنر اسلام آباد کو ہدایت کی کہ روڈ سیفٹی کے لیے اقدامات کیے جائیں، سائن بورڈ غائب ہیں وہ بھی فوری لگوائیں، کمیٹی نے خیبرپی کے میں حالیہ دہشتگردی کے حوالے سے وزارت داخلہ اور متعلقہ ادروں سے ان کیمرہ بریفنگ لینے کا بھی فیصلہ کر لیا۔ جمعرات کو پارلیمنٹ کی پبلک اکاﺅنٹ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی نور عالم خان کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلا س میں وزارت داخلہ سے متعلق 2019-20ءکے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ اراکین کمیٹی نے خیبر پختونخوا میں ہونے والے حالیہ دہشتگردی کے واقعات کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا۔ رکن کمیٹی محمد برجیس طاہر نے کہا کہ امریکہ کا افغانستان میں چھوڑا ہوا اسلحہ ہمارے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کیا کسی سرکاری افسر کا 22 سال کا بیٹا بڑے کنٹریکٹ لے سکتا ہے؟ آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ کنٹریکٹر کا آڈٹ نہیں ہوتا اگر کمیٹی کہے تو ہو سکتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر ملک کو ٹھیک کرنا ہے تو یہ کرنا ہوگا میرے پاس تمام ثبوت موجود ہیں۔ 2016ءمیں کمپنی رجسٹر ہوئی۔ کنٹریکٹر ایک ڈائریکٹر جنرل کا بیٹا ہے، میں نے تصدیق شدہ معلومات پی ڈبلیو ڈی سے لی ہیں۔ میرا مقصد کسی کی بے عزتی کرنا نہیں، جب اس ادارے کے ہیڈ کو میں نے کہا تو اس نے جواب دیا افسر کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ ہمیں تبادلہ نہیں چاہئے اس آفیسر کو ایک چانس دیتا ہوں معذرت کرے اور مستعفی ہو جائے۔
پبلک کمیٹی