ضعیف العتقادی


ضعیف العتقادی  کمزور عقیدے کو کہتے ہیں۔ایسے انسانوں کو کہا جاتا ہے جو کم علمی اور دینی ناسمجھی کے باعث طرح طرح کے ابہام و خدشات کا شکار ہوتے ہیں۔ کسی قدرتی مظہر یا واقعہ کو کسی شخص یا شے کا کیا کارنامہ سمجھ کر اس سے مرعوب ہو جاتے ہیں اور اس شخص کی عظمت کے "پرستش" کی حد تک قائل ہو جاتے ہیں۔۔ دنیا میں کم تعلیم یافتہ، ناسمجھ اور دین سے ناواقف مسلمانوں کی اکثریت مشرکانہ افعال و اعمال میں مبتلا ہے۔ سورۂ الفاتحہ کی آیت ایاک نعبد و ایاک نستعین ’’اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ جسے ہم ہر رکعت میں پڑھتے ہیں، ہمیں درس دیتی ہے کہ ہم مالکِ ارض و سما کی ہی پرستش کریں جو تنہاہمارا مالک، آقا، مدبرِ کائنات، حکمراں، خالق، مقتدر اعلیٰ اور عزیز و علیم ہے اور مددگار بھی ہر آن اسی کو سمجھیں۔ ایاک نستعین محض تکرارِ زبان کا مشغلہ نہیں بلکہ ذہن و دماغ میں بٹھا لینے والی حقیقت ہے۔ ’’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘‘ طبقہ تک ضعیف عقیدے کی گرفت سے بچا ہوا نہیں ہے۔ خدا بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اور تم خدا ہی سے مانگو اگر چہ تمہاری جوتی کا تسمہ ہی ٹوٹ گیا ہے۔ اپنے دنیاوی مسائل کے حل کے لیے غیر مرئی مخلوقات اور عامل حضرات سے ربط استوار کرنے کی خواہش ہمارے معاشرے میں صدیوں سے موجود ہے اوراب مزید سرایت کرتی جارہی ہے ‘اس کا بنیادی سبب ضعیف الاعتقادی ہے۔ جادو، ٹوٹکے، ٹونے اور تعویزات کا روحانی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض شعبدہ بازی ہے جو کمزور ایمان اور ضعیف اعتقاد والے مجبور لوگوں سے پیسے یا شہرت و مالی مفادات بٹورنے کا کھیل ہوتا ہے۔ سید علی ہجویری المعروف داتاگنج بخش نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں واضح کیا ہے کہ روحانی شخصیت، فقیر اور ولی ہمیشہ پابند شریعت ہوتا ہے اس لئے اس معیار کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ ولی اللہ نہ خود شریعت کی حدود سے باہر جاتاہے نہ ایسے کام کرنے کا حکم دیتا ہے جن سے شریعت کی حدود مجروح ہوتی ہوں۔ پامسٹری، نجوم اور علم جفر کے ایسے ماہرین دیکھے جو ماضی کا حال اس طرح بیان کرتے کہ انسان حیرت کی وادیوں میں گم ہو جاتا لیکن یاد رکھیئے کہ یہ لوگ ہرگز روحانی شخصیت نہیں تھے۔ اس لئے اگر کوئی آپ کو متاثر کرنے کے لئے ماضی کے اوراق بے نقاب کرنا شروع کردے یا مستقبل کے بارے میں پیشن گوئیوں کے ڈھیر لگا دے تو اسے ہرگز روحانی شخصیت نہ سمجھیں۔ علم نجوم یا علم جفر کا ماہر ہونا بعض اوقات انسان کے لئے عذاب اور وبال کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ ماہرین علم نجوم و جفر اور پامسٹ روحانی شخصیات نہیں ہوتیں۔ انکی بہت سی باتیں غلط اور اندازے ہوائی ہوتے ہیں جبکہ ولی اللہ اول تو راز سے پردہ اٹھاتا نہیں لیکن اگر ان کے منہ سے کوئی بات نکل جائے تو وہ پتھر پر لکیر ہوتی ہے۔ جادو ٹونے، ٹوٹکے اور اس طرح کی عملیات کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں، یہ محض شعبدہ بازی اور دکانداری ہے اور ان کے جھانسے میں آنا ضعیف العتقادی ہے جس سے دین اسلام میں منع کیا گیا ہے بلکہ یہاں تک حکم ہے کہ کسی ایسے شخص سے حال معلوم کرنے والے کی مخصوص مدت تک نماز ہی نہیں ہوتی۔ہر بندہ ولی اللہ ہے جو خالق سے براہ راست ہمکلام ہے۔بندہ رب کو پکارے تو اللہ اپنے بندوں سے خود ہمکلام ہوتا ہے۔وحی کا سلسلہ آخر الزماں نبی اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے منقطع ہو گیا مگر الہام وجدان کشف سچے خواب کے ذرائع بندوں کو رب سے ہمکلام رکھے ہوئے ہیں۔سب سے مضبوط خیال وجدان کہلاتا ہے جو بندے کے قلب پر القا ہوتا ہے۔وجدان اس قوی کیفیت کا نام ہے جس میں شک نہیں ہوتا۔مثال کے طور پر ایک اجنبی شخص ہمیں ملتا ہے اور ہم ایک ہی نظر میں اسے پسند کرکے اپنا رازدار بنا لیتے ہیں، یا ایک معالج کسی مریض کو دیکھ کر بغیر کسی ظاہری وجہ کے چند دواؤں میں سے ایک دوا چن لیتا ہے اور دوا مریض کے حق میں اکسیر ثابت ہوتی ہے، یا ہمارے ذہن میں یکایک یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ فلاں قدم اٹھانا چاہیے، بظاہر وہ قدم خطرناک ہوتا ہے، مگر نتیجے میں کامیابی ہوتی ہے۔ وہ عمل اور فیصلے جو کسی اندرونی تقاضے اور لاشعوری دباؤ کی بنا پر یکایک کیے جائیں،وجدانی عمل اور وجدانی فیصلے کہلاتے ہیں۔ وجدان کی قوت وہ خواہش و ارادہ و تقاضا، وہ عمل اور وہ فیصلہ ہے جو شعور کی گرفت سے آزاد ہوتا ہے، خود رو چشمے کی طرح نفس کے اندر سے پھوٹ نکلتا اور اپنے بہاؤ کا راستہ خود بنالیتا ہے۔ وجدانی قوت کسی کی رہنمائی کی محتاج نہیں وہ آپ اپنی منزل اور آپ اپنی رہنما ہوتی ہے۔

طیبہ ضیاء … مکتوب امریکہ

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...