ذہن سازی کا فریضہ کسے سونپا جائے؟

اس وقت ہمارے معاشرے کو جن اہم ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک طرف فرسودہ روایات کے باعث بہت سے خواتین کا استحصال ہورہا ہے اور دوسری جانب مخصوص طرز کی جدت پسندی کے حامی ذرائع ابلاغ کی مدد سے ایسی تبدیلی لانے کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں جس کا بنیادی ہدف بالخصوص خواتین کو پوری طرح مغرب کے رنگ میں رنگنا ہے۔ اول الذکر صورت نے ہمارے گھروں میں ایسے ڈیرے ڈال رکھے ہیں کہ لوگ اسے مذہبی احکام کا درجہ دیتے ہیں، لہٰذا وہ کسی بھی طرح اس سے جان چھڑانے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ثانی الذکر شکل کے ساتھ مادی فوائد کو یوں جوڑ دیا گیا ہے کہ کم از کم شہروں میں رہنے والوں کی اس کے خلاف مزاحمت کی قوت مسلسل گھٹتی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ معاشرتی سطح پر ہورہا ہے اس لیے اس کا حل فراہم کرنے کے لیے اساتذہ اور علماء بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟
اساتذہ کی اگر بات کی جائے تو ان کی شاید چند فیصد تعداد ایسی ہو جو واقعی معاشرے میں کسی مثبت تبدیلی کی خواہاں ہو اور اس کے لیے کوشش بھی کرتی ہو لیکن غالب اکثریت ایسے افراد کی ہے جن کا ایسے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تدریس پر مامور زیادہ تر لوگ اپنے پیشے کو کسی مشنری جذبے کے تحت اختیار نہیں کرتے بلکہ انھیں کہیں اور ملازمت نہیں ملتی تو وہ کسی تعلیمی ادارے سے بطور مدرس وابستہ ہونے کو معاشی مسئلے کا عارضی حل سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں اسی لیے وہ اپنی ذمہ داریاں پوری توجہ اور دیانت داری کے ساتھ کما حقہٗ نہیں نبھا پاتے۔ ایسے افراد نہ صرف اپنے پیشے کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے شاگردوں کے سامنے اپنی صورت میں ایک ایسی مثال پیش کرتے ہیں جو کسی بھی صورت قابلِ تقلید نہیں ہوتی۔ اندریں حالات، ہم ان سے ایسی کوئی توقع کر ہی نہیں سکتے کہ وہ معاشرے میں کسی مثبت تبدیلی کے لیے حصہ ڈالیں۔ 
اب آئیے علماء کی طرف کہ اساتذہ کی طرح ان کی بھی بنیادی ذمہ داری معاشرتی اصلاح کی ہے۔ پورے ملک میں لاکھوں مساجد ہیں جن میں ہر ہفتے کے دوران کم از کم ایک بار تو ایسا موقع ضرور آتا ہے جب علماء خطبۂ جمعہ کے ذریعے عوام کی ذہن سازی کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں شاید ایک دو فیصد مساجد ہی ایسی ہوں گی جہاں خطبات میں عوامی مسائل کو موضوعِ بحث بنایا جاتا ہو۔ زیادہ تر مساجد میں خطبۂ جمعہ کے نام پر مذہبی احکام و روایات کی خود سے مختلف تعبیر کرنے والے یا تاریخی واقعات کو خود سے الگ زاویۂ نظر سے دیکھنے والے افراد کے مسالک کے خلاف جذباتی تقریریں کی جاتی ہیں یا عمومی طور پر ان مسائل پر بات کی جاتی ہے جو گھروں میں اکثر ماں باپ بھی بچوں کو سمجھا دیتے ہیں۔ علماء یا خطباء کو سمجھایا اس لیے نہیں جاسکتا کیونکہ ان کی اکثریت خود کو عقلِ کل گردانتی ہے، لہٰذا وہ کسی دوسرے کی بات سننے یا سمجھنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے۔
یہ صورتحال نہایت افسوس ناک اور پریشان کن ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ مسلسل زوال کی طرف جارہا ہے اور اس زوال کے زیادہ ذمہ دار ہم خود ہیں۔ اگر معاشرہ مضبوط ہو تو ملک کی بہت سی کمزوریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے لیکن معاشرہ کمزور ہو تو ملک کبھی بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا۔ ہماری معاشرتی کمزوریوں کا فائدہ وہ عناصر اٹھا رہے ہیں جو پاکستان کو ایک مضبوط اور مستحکم ملک کی شکل میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس سلسلے میں مختلف طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کے معاشرے کو مزید کھوکھلا کیا جارہا ہے تاکہ ہم اپنے مسائل میں ہی الجھ کر رہ جائیں۔ ذرائع ابلاغ اس حوالے سے سب سے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جارہے ہیں اور ہمارے عوام دن رات ان کے زہر آلود ایجنڈے کا شکار ہورہے ہیں۔ پہلے صرف نجی ٹیلی ویژن چینلوں کی مدد سے یہ کام لیا جارہا تھا، اب سوشل میڈیا ان سے بھی کہیں زیادہ طاقت کے ساتھ ہمارے معاشرے پر حملہ آور ہوا ہے۔
ہم ہر کام کے لیے حکومت کی طرف دیکھتے ہیں حالانکہ سب کام حکومت کے کرنے کے نہیں ہوتے؛ کچھ کام معاشرے کا درد اور احساس رکھنے والے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کرنے ہوتے ہیں اور وہ صرف اور صرف انھی کے ہاتھوں ہوسکتے ہیں۔ اساتذہ اور علماء کا تعلق اسی قبیل سے ہے جنھوں نے آگے بڑھ کر ایک ہراول دستے کی شکل میں معاشرے کو سدھارنے کے لیے ہر اس برائی کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے جو بگاڑ کا باعث بن رہی ہو۔ اس کام کے لیے ہمیں کسی نے باہر سے آ کر احساس نہیں دلانا بلکہ ہم نے خود ہی سوچنا ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے کے ساتھ کیا کرنا اور اسے کس طرح لے کر جانا چاہتے ہیں۔ اگر اساتذہ اور علماء عوام کی ذہن سازی کے لیے مثبت طور پر اپنا کردار ادا نہیں کرتے اور اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی اور گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر پورے معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے کمر بستہ نہیں ہوتے تو پھر اور کس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس فریضے کو انجام دے گا؟
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...