پنجاب میں گورنر راج نوشتۂ دیوار؟

آپ آج پنجاب کے سیاسی‘ انتظامی معاملات کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیں تو اس معاملہ میں آپ میرے اخذ کردہ نتیجے پر صاد کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے کہ آئین کی دفعات 232‘ اور 234 کی ذیلی دفعات میں کسی صوبے میں ایمرجنسی‘ گورنر راج یا صدر راج کے نفاذ کیلئے جن حالات کی نشاندہی کی گئی ہے‘ وہ آج پنجاب میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ دفعہ 232 (سی) صوبے میں ایمرجنسی کے نفاذ سے متعلق ہے جس کے مطابق اگر کسی بیرونی جارحیت کی بنیاد پر ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو یا اندرونی خلفشار اس قدر بڑھ چکا ہو کہ اس پر قابو پانا صوبے کی انتظامیہ کے بس میں نہ رہے تو صدر متعلقہ صوبے کے گورنر کو ایمرجنسی کے نفاذ کیلئے کہہ سکتے ہیں۔ اس اندرونی خلفشار میں یقیناً انتظامیہ کی باہمی چپقلش کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالا آئینی بحران بھی شامل ہے۔ اس لئے پنجاب کے معاملہ میں کل کو کیا نقشہ ابھر کر سامنے آتا ہے یہ تو کل ابھرنے والے سورج کے ساتھ ہی دیکھا جا سکے گا مگر آج کی صورتحال پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ کی ہی متقاضی نظر آتی ہے جس کیلئے ایک دوسرے کیخلاف صف آراء گورنر اور وزیراعلیٰ پنجاب نے خود حالات ’’سازگار‘‘ بنائے ہیں۔ 
وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی تو اپنی سیاسی حکمتِ عملی اور دانش کے مطابق ہی عمران خان کے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے فیصلہ پر اپنے پتے پھینک رہے ہیں مگر گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کے اٹھے کسی بھی قدم میں انکی اپنی منشاء کا کوئی عمل دخل نہیں۔ وہ جو بھی قدم اٹھا رہے ہیں اور اٹھائیں گے وہ وفاقی حکمران اتحاد کی رضا کے ساتھ ہی اٹھایا جائیگا۔ عمران خان نے گزشتہ ماہ کے اختتام پر راولپنڈی میں اپنا لانگ مارچ سمیٹتے ہوئے اسمبلیوں سے باہر نکلنے اورپھر اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا‘ تو وفاقی حکمران قیادتیں اسمبلیوں کی تحلیل روکنے کیلئے سرگرم ہو گئیں۔ فریقین کی اس ساری سرپھٹول میں جو اہم کردار ابھر کر سامنے آیا وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی تھے جو ایک طرف عمران خان کی سیاست کا دم بھرتے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلہ پر انکے ساتھ کھڑے نظر آتے رہے اور دوسری جانب وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کیخلاف عمران خان کی جانب سے کی جانیوالی دشنام طرازی پر انہیں احسان فراموش کے لقب سے نوازتے ہوئے یہ بھی باور کرانے لگے کہ جنرل (ر) باجوہ ہمارے محسن ہیں اس لئے آئندہ ان کیخلاف کوئی بات کی گئی تو اسکی مزاحمت کیلئے انکی پارٹی مسلم لیگ (ق) اور وہ خود بھی میدان میں آجائیں گے۔ 
چودھری پرویزالٰہی کا یہ اعلان درحقیقت عمران خان سے اپنے راستے الگ کرنے کا اعلان تھا جس کے بعد اب چاہے مونس الٰہی عمران خان کا دامن تھامے ہی نظر آتے رہیں مگر مستقبل قریب کے سیاسی نقشے میں چودھری فیملی عمران خان کے مخالف کیمپ میں ہی کھڑی نظر آئیگی جس کیلئے عائلہ ملک اور عمران خان کی گفتگو پر مبنی مبینہ آڈیو لیکس کی افشا ہونیوالی تازہ ترین آڈیو نے چودھری برادران کیلئے راستہ اور بھی آسان بنا دیا ہے کیونکہ اس آڈیو میں چودھری پرویزالٰہی اور چودھری مونس الٰہی کے قرضوں کی معافی کے معاملہ میں عمران خان عائلہ ملک کی گفتگو کی نہ صرف تائید کررہے ہیں بلکہ چودھری برادران کے بارے میں ’’موراوور‘‘ بھی ارشاد فرما رہے ہیں۔ یہ سراسر باہمی اعتماد کے فقدان کا ہی معاملہ ہے اس لئے چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلہ پر عمران خان کا ساتھ دینے کے باوجود چودھری پرویزالٰہی وہی سیاست کھیل رہے ہیں جس کا نتیجہ انکے سیاسی اور ذاتی مفاد کے تحفظ کی صورت میں نکل سکتا ہو۔ یہی حکمت عملی وفاقی حکمران اتحاد پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی بھی ہے جو فوری انتخابات کے انعقاد کیلئے عمران خان کی حکمت عملی کو ناکام بنانے کی چالیں چل رہے ہیں اور اس کیلئے انہیں درپردہ چودھری برادران کی حمایت بھی حاصل ہے۔ 
اگر چودھری پرویزالٰہی پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے عمران خان کے فیصلہ کے ساتھ خلوص دل سے کھڑے ہوتے تو آج 23 دسمبر کو اسمبلی کی تحلیل یقینی بن چکی ہوتی۔ وفاقی حکمرانوں نے تو اپنی حکمت عملی کے تحت اسمبلی کی تحلیل رکوانے کیلئے ایک جانب گورنر پنجاب کے ذریعے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو اسمبلی میں دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہہ دیا اور دوسری جانب ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش کر ادی۔ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کیلئے پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی کال کرلیا۔ اس سے پنجاب اسمبلی کی تحلیل تو وقتی طور پر رک گئی مگر وزیراعلیٰ پرویزالٰہی چاہتے تو عمران خان کی اعلان کردہ تاریخ پر ہی اسمبلی کی تحلیل کا راستہ نکال سکتے تھے۔ وہ اس طرح کہ اعتماد کے ووٹ کیلئے گورنر کا طلب کردہ اجلاس ہونے دیتے اور اس میں مطلوبہ ارکان سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرتے اور اسکے ساتھ ہی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر پنجاب کو بھجوا دیتے۔ اس طرح انکے سمری بھیجنے کے اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر اسمبلی کی تحلیل زمینی حقیقت بن جاتی کیونکہ اس صورتحال میں وزیراعلیٰ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک وفاقی حکمرانوں کو دوبارہ مخصوص مدت کے بعد ہائوس میں لانا پڑتی جس کی اس لئے نوبت نہ آپائی کہ اس وقت تک اسمبلی کا وجود ہی ختم ہو چکا ہوتا۔ 
اگر وزیراعلیٰ پنجاب نے اعتماد کے ووٹ کیلئے گورنر پنجاب کے آئینی احکام کی تعمیل سے گریز کیا اور اسمبلی کا اجلاس بطور خاص اعتماد کے ووٹ کیلئے طلب کرنے سے گریز کیا ہے جو صوبے کو آئینی بحران اور سیاسی غیریقینی کی جانب دھکیلنے کی دانستہ کوشش ہے تو اس کا مقصد حکمران اتحادیوں کو پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ کا جواز ہی فراہم کرنا ہے۔ اسمبلی کی تحلیل کیلئے تو گورنر پنجاب کے پاس بھی آئین کی دفعہ 105‘ ذیلی دفعات ایک اور دو اور آئین کی دفعہ 112 شق (1) کے تحت دو آپشن موجود ہیں۔ ان میں سے ایک آپشن وزیراعلیٰ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں ہائوس میں نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب کرانے والا ہے جس میں کوئی دوسرا رکن بھی وزارت اعلیٰ کیلئے ارکان کی مطلوبہ تعداد حاصل نہ کرسکے تو گورنر اسمبلی کو تحلیل کرکے ہائوس کے نئے انتخابات کی طرف جا سکتے ہیں۔ دوسرا آپشن بھی وزیراعلیٰ کیلئے دوبارہ اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے اسی سے ملتا جلتا ہے۔ اس میں بھی وزیراعلیٰ کے اعتماد کا ووٹ حاصل نہ کر پانے کی صورت میں نئے وزیراعلیٰ کے چنائو کا آئینی پراسس شروع ہو گا اور کسی امیدوار کو ارکان کی مطلوبہ تعداد حاصل نہ ہو تو گورنر اسمبلی تحلیل کرکے نئے انتخابات کی جانب جائیں گے۔ مگر اسمبلی تحلیل کرنا تو وفاقی حکمرانوں کی حکمتِ عملی ہی نہیں۔ پھر صوبے کو موجودہ خلفشار اور آئینی بحران سے نکالنے کا واحد راستہ گورنر راج کے نفاذ کا ہی بچتا ہے اور یہ کام خود گورنر پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب ’’باہمی افہام و تفہیم‘‘ سے کر رہے ہیں۔ تو حضور! یہ محض قیافہ نہیں‘ نوشتۂ دیوار ہے۔ اب عمران خان صاحب خود فیصلہ کرلیں کہ انہوں نے اپنے مفاد کی سیاست کی ہے یا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کی۔ انہیں نئے یوٹرن کا یہ جواز ضرور مل گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی نہیں ٹوٹی تو خیبر پی کے اسمبلی کیوں توڑی جائے۔ تو بھائی صاحب! ایسی مفاداتی سیاست سے عوام کا کیا لینا دینا۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...