پیسے لیں، نظریہ پر قائم رہیں ، عمران خان کا خواتین ارکان اسمبلی کو مشورہ
اب کہاں گئی اخلاقیات۔ کہاں گیا درس حمیت۔ یہ ہوتی ہے انقلاب کے داعی کی سیاست۔ ایسا تو ہمارے کرپٹ سیاستدان ہی کر سکتے ہیں۔ ان کے لیے ایسا کرنا کوئی شرم کی بات نہیں۔ مگر یہ جو اٹھتے بیٹھتے دوسروں کو چور، ڈاکو، کرپٹ، لٹیرے کہہ کرلوگوں کو ان سے بدظن کرتے رہے ہیں۔ ان کو کیا ہو گیا حالانکہ خود ان کا دامن بھی 2018ء کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹوں کی خرید و فروخت کے الزامات سے داغدار تھا، پھر اپنی حکومت بنانے کے لیے پنجاب میں طیارے بھر بھرکر ایم پی اے اور نوٹوں سے بھرے سوٹ کیسوں کے سفر کو بھی ان کی حمایت حاصل رہی۔ اس کے باوجود ارکان نے بمشکل ہی ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔ شاید عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اب گزشتہ روز پی ٹی آئی کے چیئرمین نے جس طرح اپنی خواتین ارکان اسمبلی کو درس کرپشن دیا۔ اس کے بعد تو واقعی یہ شعر کئی پارٹی ورکر یاد کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ان خواتین اسمبلی نے کہا تھا کہ خان صاحب ہمیں کروڑوں کی آفر ہو رہی ہے۔ بجائے اس کے عمران خان کہتے خبردار ایمان کا سودا نہ کرنا، بکنا نہیں۔ الٹا موصوف ان سے کہہ رہے ہیں کہ پیسے لے لو انجوائے کرو مگر نظریہ پر قائم رہو۔ یہ کونسا سبق پڑھا رہے ہیں وہ اپنے ایم پی ایز کو یا ایم این ایز کو۔ کیا یہی صداقت کا سبق ہے جس پر وہ فخر کرتے پھرتے ہیں۔ اب معلوم نہیں چاچا رحمتے اس پر کیا کہیں گے جنہوں نے عمران خان کو نجانے کونسے اصول کے تحت صادق و امین ٹھہرایا تھا۔ اس بیان کے بعد تو عمران خان اور باقی سیاستدانوں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔
٭٭٭٭٭
فلم پٹھان کا تنازعہ، شاہ رخ خان کو زندہ جلا دیں گے۔ ہندو اچاریہ
اب کیا فرماتے ہیں شاہ رخ خان اس مسئلے پر۔ وہ تو اپنی طرف سے اپنے ہندو بھائیوں کو راضی رکھنے کے لیے اپنی عمرہ کی نیکیاں تک ماتا مندر جموں میں جا کر مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر نثار کر چکے ہیں۔ واضح رہے گزشتہ دنوں شاہ رخ نے عمرہ ادا کیا تھا۔ اس کی ویڈیو وائرل ہوئی تو مسلمان خوش تھے مگر ہندوئوں نے سیخ پا ہونا ہی تھا۔ وہ فلم انڈسٹری تو کیا زندگی کے کسی میدان میں بھی مسلمانوں کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ پاتے۔ ابھی شور اٹھ ہی رہا تھا کہ شاہ رخ خان نے عمرہ سے واپسی پر جموں میں ماتا دیوی کے مندر جا کر وہاں ہاتھ جوڑ کر انہیں بھی پرنام کیا تاکہ ہندو خوش ہو جائیں۔ مندر میں پجاریوں اور حکام نے انہیں نہایت عزت و احترام دیا مگر اس کا صلہ کیا ملا۔ شاہ رخ سے پہلے بھی بہت سے مسلمان ہندو بیویاں رکھنے سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھنے کے باوجود ہندوئوں کی نظروں میں ملیچھ ہی رہے۔ اب یہی شاہ رخ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ پنجابی کی ایک کہاوت کا ترجمہ ہے ’’یار بھی گنوایا اور عزت بھی‘‘ اب شاہ رخ خان کی نئی فلم پٹھان میں ایک گانا ہے۔’’بے شرم انگ‘‘ اس پر ہندوئوں کا احتجاج ہو رہا ہے کہ اس گانے میں زعفرانی رنگ دکھایا گیا ہے جو ہندوئوں کا مذہبی رنگ ہے۔ اس لیے یہ توہین وہ برداشت نہیں کریں گے۔ چنانچہ اب گلی گلی میں شور ہے کہ شاہ رخ خان کو زندہ جلا دیں گے۔ جس سنیما میں فلم لگی اسے بھی جلا دیا جائے گا۔ اب کہاں گئیں شاہ رخ کی ہندو بھائیوں کی خوش کرنے کی کوششیں۔ کیا کسی مسلمانوں نے اسی گانے میں سبز رنگ کے استعمال پر اسے مذہبی جذبات کی توہین کہہ کر شور مچایا ہے۔ نہیں کسی نے نہیں، جبکہ دونوں مذہبی رنگ کہلاتے ہیں تو پھر زیادہ آگ ہندو نتہا پسندوں کو ہی کیوں لگ رہی ہے۔ شاید اس لیے کہ اس فلم کا ہیرو مسلمان ہے اور وہ اسے منہ کے بل گرانا چاہتے ہیں۔ امید تو نہیں مگر شاید اب شاہ رخ کی آنکھیں بھی کھل جائیں گی۔
٭٭٭٭٭
میرے لیے بلاول اور حمزہ یکساں ہیں ۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ نون لیگ کا حق ہے۔ آصف زرداری
یہ تو ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ والا معاملہ بن گیا ہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں اتنی قربت تو پہلے کبھی نہیں رہی۔ میثاق جمہوریت کے بعد بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے وقت فوری طور پر نواز شریف کا ہسپتال پہنچنا ان قربتوں کا آغاز تھا مگر درمیان میں ’’وعدے کوئی حدیث نہیں ہوتے‘‘ والا دور بھی آیا۔ خلیج بھی پیدا ہوئی۔ سڑکوں پر گھسیٹنے کے بیانات بھی دوریاں ڈالتے رہے مگر پھر سیاست کے میدان میں جب ایک نئے کردار نے میلہ لوٹ لیا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان ٹوٹے رشتے ایک بار پھر جڑنے لگے۔ آصف علی زرداری کو کوئی چاہے کچھ بھی کہے مگر یہ سب مانتے ہیں کہ وہ سیاست کے ایک اچھے کھلاڑی ثابت ہو رہے ہیں، انہیں موقع مناسبت سے پتے کھیلنا آتے ہیں۔ سو وہ پنجاب میں اپنی پارٹی کی کم ہوتی مقبولیت اور ارکان اسمبلی کی تعداد تھوڑی ہونے کے باوجود خاصے متحرک ہیں۔ انہوں نے جس طرح چودھری شجاعت جیسے بزرگ رہنما کی حمایت حاصل کی اس سے پرویز الٰہی کو بھی دن میں تارے ضرور نظر آئے جو عددی اقلیت کے باوجود اکثریت کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بنے ہیں۔ اب ان کے خلاف عدم اعتماد کا شور ہے تو مخالفین نے خبر اڑائی کہ پنجاب کا اگلا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا ہو گا مگر آصف زرداری نے فوری طور پر اس کی تردید کر دی اور کہا میرے لیے حمزہ شہباز اور بلاول دونوں برابر ہیں۔ وزارت اعلیٰ حمزہ کا حق ہے۔ اگر یہ محبت یونہی قائم رہی تو آنے والے الیکشن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کے ووٹر ق لیگ اور پی آئی آئی کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے آصف زرداری کی حمزہ کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کی خواہش پوری ہوتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ حالات گورنر راج کی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
جن نکالنے کے بہانے جعلی پیرنی اور اس کے چیلوں نے مخبوط الحواس لڑکی کو جلا ڈالا
لیجئے ایک اور مظلوم بنت حوا جعلی عاملوں کی نذر ہو گئی۔ خدا جانے اس دور میں بھی ہمارے معاشرے میں لوگ کس طرح ان جعلی بابوں، پیروں، عاملوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ یہ عیار و مکار لوگ کس طرح گلی محلوں میں جال بچھا کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ سادہ لوح ناخواندہ افراد ان کے قابو میں آ جاتے ہیں۔ آئے روز ایسی خبریں سامنے آتی ہیں کہ جعلی عامل نے جن نکالنے کے نام پر لڑکے کو یا لڑکی کو نہایت بے دردی سے مار مار کر قتل کر دیا یا جلتے کوئلوں ، سلاخوں سے داغ داغ کر مار دیا ۔ چند روز شور ہوتا ہے پھر وہی بے حسی کی چادر ہمارے معاشرے کو ڈھانپ لیتی ہے۔ ان قاتلوں کو تو تاحیات جیلوں میں سڑنے کے لیے ڈال دینا چاہیے ۔ عوام بے چارے تو مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے اچھا علاج کرانے سے معذور ہیں۔ وہ توسر درد یا بخار ہونے پر بھی میٹرک فیل عطائیوں اور جعلی دم کرنے والوں کا رخ کرتے ہیں۔ ہاں البتہ مقامی انتظامیہ، پولیس اور عدالتیں اس بارے میں بے خوف ہو کر ایکشن لیں، یہ جعلی آستانے اور روحانی دفاتر بند کرائیں، جعلی عاملوں اور پیروں کو داخل زنداں کر کے سخت سزائیں دیں تو حالات میں بہتری آ سکتی ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ اب خواتین نے بھی جعلی روحانی عامل یا پیرنی بن کر یہ گورکھ دھندا شروع کر دیا ہے کیونکہ زیادہ تر خواتین ہی ان توہمات کا شکار ہوتی ہیں۔ انہیں ہی جن زیادہ ستاتے ہیں۔ یا وہ شوہر کو ساس کو یا محبوب کو قدموں میں دیکھنا چاہتی ہیں جس کے نتیجے میں ان جھوٹے عاملوں کا کاروبار چلتا ہے۔ اب فیصل آباد میں جس طرح ایک دماغی معذور بچی کو جن نکالنے کے نام پر ایک پیرنی نے اپنے چیلوں کے ساتھ مل کر مار ڈالا انہیں بھی سزائے موت دے کر حساب برابر کیا جائے تاکہ یہ مکروہ دھندا ختم ہوسکے۔