قومی سیاست کا کیا کیا جائے ؟سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے طالع آزمائی میں مصروف ہیں یہ سلسلہ صرف سیاستدانوں ہی کے مابین جاری نہیں بلکے شہری بھی اس میںحصہ دار ہیں ۔ سیاست میں جو طوفان بدتمیزی برپا ہے شاید ہی ماضی می اسکی کوئی مثال ملتی ہو سیاست سے شائستگی اور برادشت کا عنصر تو ناپید ہی ہو گیا ہے قائدین سے لیکر کارکنان اور سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والا ہر شخص گویا شتر بے مہار ہے ۔آزادہ اظہار رائے کو بنیاد بنا کر اداروں اور سیاسی مخالفین کیساتھ وہ کچھ کیا جا رہا ہے جو شاید گزشتہ پچھتہر سال میں نہ ہوا۔ ہو گلی محلے کی محافل ہوں سوشل میڈیا یا جلسے جلوس اختلاف رائے سے بڑھ کر بات اب گالم گلوچ للکار اور دھمکیوں تک جا پہنچی ہے۔ آئین قانون جمہوریت اور اخلاقیات کی وہ تشریح کیجاتی ہے جس کی زد میں دوسرا تو آجائے لیکن اپنی ذات اس سے مبرا ہی رہے۔ سیاست میں جاری یہ چپقلش عوامی حلقوں سے نکل رہی ہے ۔بحرحال مثبت سوچ رکھنے والے ابھی معاشرے میں ناپید نہیں ہوئے انکی سوچ اور عمل ملک وقوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے معاشرے میں مثبت سوچ اور طرز عمل کے فروغ کی بے حد ضرورت ہے۔ یوں تو بحثیت علم دوست لوگوں کیساتھ میل ملاقاتیں اور گفت وشید معمول کی بات ہے ۔ گذشتہ دنوں کچھ نوجوانوں کیساتھ بات چیت ہوئی تو یہ جان کر بیحد خوشی ہوئی کہ فرض شناسی اور زمہ داری کا عنصر ابھی بھی موجود ہے۔ ملک و قوم کی فلاح وبہبود کے لئے ہمدردی کے جذبات اور سب سے بڑھ کر قوم کی ترقی انکی اولین ترجیح ہے اور یہی بات ہماری عزت نفس کی تسکین کا باعث ۔ یہ درست ہے کہ معاشرتی تقسیم تحمل برداشت اور بردباری کا فقدان بالآخر معاشرے کی تباہی وبربادی کا سبب ہے جس کا متحمل کوئی مہذب معاشرہ ہر گز نہیں ہوسکتا ،مثبت سوچ سائستگی تحمل برداشت اورمثبت طرز عمل ہی کسی معاشرے ادارے ملک کی بقاء کا ضامن ہوسکتا ہے دنیا بھر کے مہذب معاشرے اسی بنیاد پر تشکیل ہوئے اور آج قابل تقلید ہیں ہمارے ہاں بھی مثبت سوچ کے حامل افراد کو ہر شعبہ زندگی میں آگے آنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ منفی اور نامناسب رویوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ آج تعمیری جذبوں کے حامل نوجوان اسی معاشرے کا حصہ ہیں اگر انکے دل میں اپنے ملک اور سماج کی محبت ہے ۔ آج اگر ہر کوئی ملک وقوم کی تعمیر وترقی میں اپنا حصہ ڈالے تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارا معاشرہ بھی بڑھتی ہوئی نفرتوں کے چنگل سے نہ صرف آزاد ہوگا بلکہ جلد ان مہذب معاشروں کی صف میں نظر آئیگا جنکی مثالیں دی جاتیں ہیں مثبت طرز فکر و عمل ہی سے قوم اور معاشرے کی تشکیل ممکن ہے سیاست معاشرت اخلاقیات یہ سب انسانی رویوں کے متقاضی ہیں اور مثبت رویے ہی ان تمام شعبہ ہائے زندگی کو بہترین بنا سکتے ہیںپاکستانی قوم ایک جذباتی قوم ہے ملک وملت سے انکی محبت کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا جسکا عملی مظاہرہ اکثر وبیشتر قدرتی آفات سانحات اور حادثات کے موقع پر دیکھنے میں آتا ہے حالیہ دنوں میں بھی ملک کے مختلف علاقوں میں جو سیلاب کی تباہ کاریاں ہیںاسکو لیکر تمام قوم اور سیاسی قیادت نہ صرف فکرمند ہے بلکے عملی طور پر بھی قومی یکجہتی کا حسین منظر بنی ہوئی ہے اگر ایسی ہی یکجہتی ملکی سیاست میں بھی پروان چڑھ جائے تو ملک میں جاری سیاسی بحران سمیت تمام کلیدی مسائل کا حل یقینی ہوسکتا ہے سیاست میں بھی ملک وملت سے محبت کا جذبہ غالب آئے تو معاشرے میں مثبت اور تعمیری سوچ اور جذبات کا فروغ ممکن ہوسکتا ہے سیاسی قیادت کو ایک بات طے کر لینی چاہیے کہ سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن سیاست کو بنیاد بنا کر قوم اور معاشرے کی تقسیم کسی صورت قابل قبول نہیں ہونا چاہیے ورنہ جن ممالک میں عوام کوگروہی سیاسی فروعی لسانی اور طبقاتی طور پر تقسیم کیا گیا انکا انجام انتہائی خوفناک ہوا ہمیں تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے اختلاف میں اتنا آگے نہیں جانا چاہیے کہ واپسی کا کوئی راستہ نہ بچے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم پاکستان سے ہیں اور پاکستان ہی کی بدولت ہمارا قومی تشخص بحال ہے ۔