حضرت سید عبد الرحمان شا ہ با با ؒ چشتی صابری کا شمار صاحب طریقت اور صاحب کشف بزرگوں میں ہوتا ہے۔ آپ کے والد کا اسم شریف حضرت پیر سید محمد شاہؒ اور دا دا کا نام حضرت پیر سید غریب شاہ ؒ ہے ۔ آپؒ کا سلسلہ نسب چالیس واسطوں سے امام المتقین سید الشہداءمظلوم کربلا سید نا امام عالی مقام حضرت اما م حسین علیہ السلام سے جا ملتا ہے جبکہ اب شجرہ طریقت بھی سرتاج اولیا ءحضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ سے ہو کرامیر المومنین حضرت علیؓ کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے ، گویا کہ آپ حسینی سید ہیں ۔آپ ؒ کے والد سید محمد شاہ ؒ ولی کامل اور عارف با اللہ تھے ۔عمر کا بیشتر حصہ جذب اور سلوک میںگزارہ حضرت سیدنا مخدوم علاﺅالدین احمد صابر ؒ پیرانِ کلیر شریف کے مزار پر کافی عرصہ معتکف رہے اور عشق و مستی سے سر شار رہے ۔شیخ المشائخ پیر طریقت حضرت پیر سید عبد الرحمان شاہ با با چشتی صابری ؒ خانوادہ چشتیہ صابریہ تمبر پورہ شریف (جوکہ ناصر پور ریلوے سٹیشن جی ٹی روڈ پشاور شہر سے دس ، بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے) کے جلیل القدر بزرگ تھے جو تصوف ، طریقت اور روحانیت کے اعلیٰ و ارفع مرتبہ پر فائز تھے اور اپنے وقت کے غوث الزمان اور علماءمشائخ سرحد کہلائے ۔تصوف و طریقت کی عظیم الشان دنیا میں تمبر پورہ شریف کے معتقد روحانی سلسلہ خاندان چشتیہ صابریہ کو منفرد مقام حاصل ہے ۔اللہ تعالی نے اس خانوادے کوایسی بے مثال بر گزیدہ ہستیوں سے نوازا جنہوں نے اسلام اور شریعت کے فروغ کے لئے کارہائے نمایاں سر انجام دیئے اور اپنے روحانی فیوض و کرامات کی برکت سے ایک عالم کو تصوف کی روشنی سے منور کیا پیر طریقت حضرت پیر سید عبد الرحمان شاہ با با چشتی صا بری ؒ تصوف کے چار طریقوں کے عامل اور مجاز تھے ۔آپ ان چاروں طریقوں سے فیض عطا کرتے اور اکثر فر ما تے کہ وہ کیسا فقیر ہے کہ ایک ہی طریقے کو چلائے ،تاہم آپ مریدین کو عموماً چشتیہ سلسلہ میں بیعت کرتے ۔ ابو الحسن
نوری ؒ کا مشہور قول ہے کہ تصوف ایک اخلاقی شے ہے جو اللہ تعالی کے اخلاق و عادات اختیار کرنے سے حاصل ہو تا ہے ۔ ”دنیا دشمنی “اور ” خدا دوستی “کا نام تصوف ہے ۔ صوفیاءکی روحیں غلاظت بشریٰ سے آزاد ،کدورت نفسانی سے صاف اور خواہشات سے مبرا ہوتی ہیں ۔ تصوف نہ تو رسم ہے اور نہ علم کیونکہ اگر رسم ہوتا تو مجاہدات سے اورعلم ہوتا تو تعلیمات سے حاصل ہو جاتا حق تعالی ٰ نے حدیث میں مرد مومن کی شان اس طرح بیان کی ہے کہ ”ہم اس کے کان بن جاتے ہیں ،اس کی آنکھ بن جاتے ہیں اور اس کی زبان بن جاتے ہیں “
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کارکشا کارساز
تمبر پورہ شریف کی ان مبارک ہستیوںکے دست حق پرست پر ہزاروں بے دین ،دولت ِ ایمان سے بہرہ مند ہوئے پیر مرشدی پیرحضرت سید عبد الرحمان شاہ با با چشتی صابری پیر طریقت حضرت پیر سید قاسم شاہ ؒ چشتی صابری کے والد بزرگوار تھے جنھوں نے اپنی پوری زندگی خلقِ خدا کو راہ حق دکھانے اور انہیں شریعت و طریقت کے اسرارورموز سے آگاہ کرنے کے لئے وقف کر رکھی تھی۔پیر سید قاسم شاہ ؒ کے دو صاحبزادے رئیس الفقراءپیر سید مستان شاہ سرکارحق باباؒ (جنہوں نے اس دنیا فانی سے پردہ فرمالیا ہے)اور پیر سید عالم شاہؒ(بابو جان سرکارجنہوں نے اس دنیا فانی سے پردہ فرمالیا ہے)ہیں ۔پیر عبد الرحمان شاہ بابا چشتی صابریؒ نے حلقہ ارادت سے منسلک افراد کی روحانی اصلاح پر ہمیشہ بھر پور توجہ دی روحانیت میں آپ کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ آپ کے تربیت یافتہ مریدوں اور خلفاءکی زندگیاں بھی خالص اسلامی سانچے میں ڈھلی ہوئی تھیں ، سینکڑوں لا علاج مریضوں کو آپ کی روحانی نگاہ سے شفاءکاملہ نصیب ہوئیں آپ ؒنے سلسلہ چشتیہ صابریہ کی ترویج و اشاعت میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی ،با قا عدہ اپنے مشائخ کے اعراس پر ختم خواجگان منعقد فر ماتے اور خصوصاً ہر مہینہ کی چٹھی تاریخ کو خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری ؒ کی یاد میں محفل سماع منعقد فر ماتے یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔آپ کا درباری قوال برصغیر پاک وہند کا مشہور و معروف قوال میراں بخش پشاوری تھاجوکہ ایسی محافل کو اپنی قوالی سے آراستہ کر تاتھا،آپ محفل سماع اور عارفانہ کلام کو پسند فر ما تے تھے کہ یہ اولیاءچشت کو محبوب ہے روایت ہے کہ سماع فیضان حق ہے (کشف المحجوب ) اور تمام رات صاحب ذوق حضرات ”وجد “ و ” حال “ میں مصروف رہتے اور دوران سماع میں جس شخص پر بھی آپ کی توجہ کاملہ کی نظر پڑجاتی وہ مرغ نیم بِسمل کی طرح گھنٹوں تڑپتا رہتا ۔حضرت پیر سید عبد الرحمان شاہ با باچشتی ؒ کرامت ولی اللہ تھے ۔آپ کی دعائیں امر کا درجہ رکھتی تھیں اور حق تعالی قبولیت کے دربار میں فوراً قبول ہو جاتی تھیں ۔آپ ؒ کی زبان مبارک سے جو الفاظ نکلتے اللہ تعالی ان کی لاج رکھتا آپ جو کہتے وہی ہو جاتا آپ اپنے والد گرامی مرتبت حضرت پیر سید محمد شاہ ؒ چشتی صابری سے بیعت ہوئے جنہوں نے زبدة العارفین حضرت صوفی محمد حسین ؒ مراد آباد شریف (بھارت ) سے کسب فیض کیا تھا ۔آپ حق تعالی اور رسول مقبول کے عشق حقیقی سے سر شار تھے اور آپ کی زندگی قرآن و سنت کا عملی نمونہ تھی ۔ آپ ہر ملنے والے کی دلجوئی فر ما تے اور کسی کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹا تے ۔اپنے مریدین پر آپ کی نظر کرم ہر وقت رہتی اگرچہ آپ روحانی تصوف کے بلند مقام پر فائز تھے لیکن آپ پر فقر کا حقیقی رنگ بہت غالب تھا اور آپ کی زندگی کے کسی پہلو سے یہ ظاہر نہیں ہو تا تھاکہ اللہ کے بندوں میں آپ کو ظاہراً کوئی امتیاز حاصل ہے ۔آپ کی زندگی انتہائی سادہ تھی ، ظاہری نمود و نمائش سے گریز فر ماتے جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی ہوتا تھا کہ آپ حلقہ مریدین و تابعین میں بھی اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتے آپ مریدوں کو نصیحت فر ما تے کہ اپنے اندر انکساری پیدا کرو کیونکہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کو عاجزی پسند ہے اللہ تبارک تعالی نے اپنی مخلوق میں آپ کو خوب مقبو لیت عطا فر مائی صوبہ خیبر پختونخوا اور گرد و نواح کے علاوہ دوسرے شہروں سے مخلوق خدا جوق در جوق آتی اور فیوضات و بر کات کی نعمت سے ما لا مال ہو کر جاتی ۔آپ نہایت ہی منکسر المزاج صاحب علم و کرم تھے بحشش و عطا آپ کا خاصہ تھا ۔
مریدین کو محنت سے حلال رزق کمانے کا حکم فر ماتے اور اکثر فر ماتے کہ کسب کرو اور اپنی اولاد کو حلال روزی کھانے کا عادی بناﺅ ایک بار ارشاد فر ما یا ”رزق حلال کے لئے کسب کرناایک خاص عبادت ہے اور اس میں فقر بھی چھپ جاتا ہے اور فقیر کسی کا محتاج بھی نہیں ہو تا کیونکہ فقر میں سوال کرنا حرام ہے “ آپ مریدین کے ظاہر کو شریعت سے آراستہ کر تے اور بعد ازاں باطن کو با لیدگی عطا کرتے ۔آپ دربارعالیہ تمبر پورہ شریف کی جامع مسجد شیخ المشائخ پیر عبد الرحمان شاہ ؒ میں خطابت کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے اور مذہبی موضوعات پر آپ تقریروں سے علم و فضل اور معرفت الہیٰ سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہے ،حضرت پیر سید عبدالرحمان شاہ باباؒ زینت رئیس الفقراءپیر مرشدی حضرت پیر سید مستان شاہ سرکار حق با با ؒ چشتی صابری کے مرشداوردا دا حضور تھے جنہوں نے اس جہان فانی سے پردہ فرمانے سے قبل اپنے صاحبزادے حضرت سید قاسم شاہ ؒ کی حیات ہی میں حق با با کو اپنا روحانی فیض رحمت فر ماتے ہوئے دربار عالیہ تمبر پورہ شریف کی سجادہ نشینی کے شرف سے مشرف فر ما یا درگاہ عالیہ تمبر پورہ شریف کے موجودہ سجادہ نشین قطب دوراں مجسمہ فقرو شرع رئیس الفقراءپیر و مرشدی حضرت پیر سید مستان شاہ سر کار حق با با ؒ چشتی صابری دامت بر کاتہم اپنے زہدُ و تقویٰ کے لئے مشہور تھے ،اورایک سچے عاشق رسول اور عقیدت مند محبت کے سمندر میں ڈوبے ہوئے عاشقِ فرید تھے۔آپ کی با با فرید ؒ کے ساتھ نسبت خاص نے صوبہ سرحد میں رنگ فریدی میں ایک ایسا روح پرور نکھار ابھا را ہے کہ صوبہ سرحد میں یہ رنگ پھیلتا ہی جا رہا ہے اور عاشقان فرید کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے ۔وصال سے کچھ روز پہلے آپ نے خود قبر پسند فر مائی۔آپ بروز ہفتہ 14 فروری 1953 ءبمطابق 29 جما دی الاول 1372 ھ صبح صادق کے وقت واصل بحق ہوئے اس روز بارانِ رحمت تھی ہزاروں کی تعداد میںمریدین اور عشاق جنازہ میں شریک تھے اور ہر کوئی غمزدہ و گریہ بار تھا ۔ سہ پہر چار بجے آپ پسند کردہ جگہ پر آسو دہ خاک ہو ئے زائرین کے لئے مزار مبارک تمبرپورہ شریف کے قریب ایک بلند مقام پر مرجع خاص و عام ہے آپ کا عرس مبارک ہر سال 29 جمادی الاول کو پیر صاحب تمبر پورہ شریف رئیس الفقراءحضرت پیر سید مستان شاہ سرکار حق با باؒ کے صاحبزادے پیر سید عنایت شاہ باچا عرف موتیاں والی سرکارکے زیر سرپرستی ختم خواجگان ہو تا ہے