پردیس میں اردو فکشن کی صورتحال 


تقسیم ہند کے بعد ہجرت کا سلسلہ صرف جنوبی ایشیا کے ممالک ہی میں نہیں بڑھا بلکہ کئی لوگوں نے انگلستان و یورپ کا بھی سفر کیا اور جنوبی افریقہ و عرب ممالک میں بھی روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہوئے اور وہیں بس گئے۔ جرمنی دوسری جنگ عظیم کے بعد جس طرح کے مسائل اور معاشی و معاشرتی تباہ کاریوں سے نبرد آزما تھا ا±ن میں روزگار بہت بڑا مسئلہ تھا۔ دوسرا بڑا مسئلہ زبان سے ایشیائی یا ہندوستانی و پاکستانی لوگوں کے لیے جرمن زبان سے ناواقفیت تھی جس کی بنا پر جرمنی کی طرف ہجرت کا دروازہ ساٹھ کی دہائی میں کھلا جس کے لیے جنگ کی تباہ کاریوں اور دیگر سماجی نسل پرست مسائل سے نمٹنے کے لیے جرمنی نے خود ترک معماروں کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دی اور ا±ن کے لیے باقائدہ کالونیاں اور ایسے رہائشی علاقے بسائے جہاں انہیں جرمن زبان سیکھنے اور جرمن معاشرے میں ضم ہونے کے بجائے ترک زبان و ثقافت کا ماحول زیادہ میسر رہا۔ بعد ازاں یہ سلسلہ ستر اور اسی کی دہائی میں اتنا بڑھا کہ تعلیم و تربیت کی غرض سے آنے والے دیگر نڑاد قوموں کے افراد کی تعداد یہاں بڑھنے لگی جس میں امریکی، روسی، ویت نامی، ایرانی اور ہندوستانی اور مختلف عرب ممالک سے تعلق والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا اور زبان کے ساتھ ساتھ متنوع اقسام کے ادب و ثقافت کا سلسلہ بھی دراز ہوا۔ غیر جرمن ادب کے پنپنے اور پھلنے پھولنے کے تاریخی پس منظر میں اگر اردو زبان و ادب کا جائزہ لیں تو ہمیں عہد حاضرکا ادب اپنے موضوعات کے حوالے سے آج کے جدید ادب تفہیم میں بہت مدد کرتا ہے.
اردو کی نئی بستیوں کا ادب ، مہجری ادب، عہد ما جدیدیت یہ تمام اصطلاحات کی معنوی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق یورپ میں انگلستان کے بعد جرمنی ہی وہ ملک ہے جہاں اردو افسانہ ، ناول، افسانچہ اور مائکرو فکشن نہایت تیزی سے مقبول عام ہورہا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں فخر ہے کہ میرے خاندان سمیت دیگر افسانہ نگاروں کا تعلق جرمنی کے دارالحکومت برلن سے ہے۔ جب کہ اسٹگارٹ،ہائڈل بیرگ اور فرینکفرٹ کے علاوہ ہمبرگ سے بھی کچھ افسانہ نگار بہترین فکشن تحریر کرہے ہیں اور مسلسل اردو ادبی رسائل و جرائد میں جگہ پارہے ہیں۔ اس سے قبل میں ان کا تعارف پیش کروں میں چاہتی ہوں کہ “ عالمی افسانہ فورم جو فرینکفرٹ کے ایک افسانہ نگار وحید قمر کا انٹرنیٹ پر پیش کردہ فورم ہے اس کا ذکر کیا جائے جو نہ صرف جرمنی میں مقیم کئی کہانی کاروں کے لیے افسانے کی تخلیق اور تکنیک سے واقف کروانے کا زریعہ بنا بلکہ اردو کے تمام معروف افسانے کی تشہیر کا بھی سبب بنا جو افسانے کے قارئین اور شائقین کے لیے طمانعت اور دلچسپی کا باعث رہا۔ اس افسانہ فورم میں افسانے کے فنی لوازم سے لے کر بنت، پلاٹ اور مکالمہ و جملہ سازی کی تربیت گاہ رہا جہاں دنیا بھر کے معروف اور جیّد افسانہ نگاروں ، اساتذہ ادب ، تنقید نگاروں اور محقیقین کو نئے افسانے کے حوالے سے دعوت فکر و تربیت دی گئی۔ نو مشق افسانہ نگاروں نے بھی اس فورم میں ہونے والے سالانہ افسانہ میلہ سے فیض اٹھایا اور تربیت حاصل کی اور جیّد اساتذہ ادب و ناقدین نے بھی آج کے افسانہ نگاروں کی فکر سے فیض حاصل کیا۔ دوہزار تیرا میں آسڑیلیا، کینڈا، جرمنی ، پاکستان اور ہندوستان کے محبان اردو افسانہ کی جانب سے یہ فورم ترتیب دیاگیا تھا اور آج تک کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے اور سالانہ عالمی میلے میں پیش کئے جانے والے افسانوں کے بھی کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں اور منتخب افسانوں کے انگریزی اور جرمن زبان میں تراجم بھی ہو کر شائع ہوئے ہیں۔ ہم جرمنی میں فن افسانہ کا جائزہ لیں تو اس کے لیے انور ظہیر رہبر جو معروف افسانہ نگار و شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ سند یافتہ مترجم بھی ہیں، انہوں نے گذشتہ برس جرمنی کے گیارہ اہم افسانہ نگاروں کے فن و شخصیت کو ایک کتاب میں پیش کرکے جرمنی کی ادبی تاریخ میں ایک اہم باب رقم کیا ہے “ رنگِ برگ “ کے عنوان سے مرتب کردہ اس کتاب میں گیارہ افسانہ نگاروں کا مکمل تعارف اور ا±ن کے دو افسانے شامل کئے گئے ہیں یعنی کتاب میں کل بائیس افسانے ہیں کہ یورپ اور دنیا بھر میں جرمنی کے فن افسانہ اور افسانہ نگاروں کے تعارف کے لیے ایک تعارفی اور تاریخی دستاویز ہے۔جن افسانہ نگاروں کے افسانے اس کتاب میں شامل ہیں ا±ن میں انور ظہیر رہبر سمیت برلن سے جناب عارف نقوی، رشی خان ،سرور غزالی، عامر عزیز اور مجھ احقر کے افسانے موجود ہیں جبکہ میونخ سے معروف ڈرامہ / فلم رائٹر اور شاعر سلمان حمید، فرینکفرٹ سے طاہر مجید، نگہت، وحید قمر اور اسٹٹگارٹ سے ہما فلک شامل ہیں۔ یہ تمام منتخب کردہ افسانے اِن افسانہ نگاروں کے وہ معروف افسانے ہیں جو ا±ن کے افسانوی مجموعے میں شامل ہیں یا کسی ادبی جریدے اور ویب سائٹ کی زینت بن کر مقبولیت حاصل کر چکے۔ موضوعات کے حوالے سے بیشتر کا موضوع انسان اور معاشرہ ہے، ہجرت کا کرب اور رشتوں سے دوری کا احساس ہے ۔ پانچ سو کی تعداد میں چھپنے والے اس افسانے کے مجموعے کی اشاعت کا اہتمام کراچی کے ایک معروف ناشر فضلی سنز نے کیا ہے جب کہ سرورق ہماری بیٹی سیدہ مایا ظہیر نے بنایا ہے۔


 جب بھی جرمنی کی سرزمین سے اردو افسانے کا ذکر ہوگا تب مرحوم منیر احمد کو ضرور یاد کیا جائے گا جنہوں نے ساٹھ کی دہائی میں مغربی جرمنی کے شہر ہمبرگ سے اردو و جرمن افسانہ نویسی معہ تراجم کے پیش کی اور اردو کے لازوال کلاسیکل افسانوں کو جرمن زبان میں منتقل کیا اور جرمن کلاسیکل افسانوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔ ا±ن کے کئی افسانوں کے مجموعے آج بھی اسی ہمبرگ یونیورسٹی کے کتب خانے میں موجود ہیں جہاں وہ اردو کئی سالوں تک پڑھاتے رہے۔ مجھے یقین ہے کہ اردو افسانوں کے تراجم میں مجھ احقر سمیت عارف نقوی، انور ظہیر رہبر اور کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن