چند روز قبل اپنی جیپ پر پرانا ایئر پورٹ روڈ اسلام آباد سے سی ایم ایچ کی طرف روانہ ہوا۔ کرال چوک کے گول چکر کی چڑھائی سے پل کی طرف جا رہا تھا کہ سڑک کنارے ایک کمزور عمر رسیدہ جو پیدل جا رہا تھا گاڑی روک کر اسے بٹھا لیا۔ یہ تقریباً 50یا 55سال سالہ نحیف و کمزور باریش چہرے پر خاص قسم کی اداسی ،پریشانی اور مایوسی محسوس ہوئی۔ لباس بہت ہی پرانا معمولی قیمت کا مگر صاف ستھرا تھا مجھے سلام کیا اور بڑی ہی انکساری و عاجزی سے شکریہ ادا کیا۔ نہ جانے کیوں مجھے چند سوال کرنے اور اس کا حال معلوم کرنے کا تجسس ہوا۔ پوچھا کدھر جانا ہے کہنے لگا سی ایم ایچ جا رہا ہوں۔ سرد آہ بھرتے انتہائی افسردگی میں کہنے لگا، دیول مری کا رہنے والا ہوں۔ کافی عرصے سے بیروزگار ہوں۔ پانچ بچیاں، بچے اور اھلیہ ہے۔ تندور پر کام کرکے نظام زندگی چلاتا تھا مگر جلدی مرض کی وجہ سے تندور کی تپش کے سامنے اب کام نہیں کر سکتا۔ بے بس ہوں۔ شوگر اور بلڈ پریشر بھی ہے۔ غربت و افلاس اس قدر زیادہ ہے کہ علاج کرنے سے بھی قاصر ہوں۔ کئی کئی دن گھر میں فاقے کی حالت میں گزرتی ہے۔ خو ف خدا رکھنے والے صاحب حیثیت لوگ کبھی کبار مدد کر لیتے ہیں۔ کسی سے مانگ نہیں سکتا۔ مزوری کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ گھر سے نکلا تو جیب میں ایک روپیہ بھی نہ تھا۔ ایک کار والے نے دیول سے بٹھا لیا۔ فیض آباد اتارا وہاں کچھ انتظار کے بعد ایک موٹر سائیکل جوان نے خدا ترسی کرتے یہاں تک پہنچایا۔ میں بہت پریشان ہوں یہ کہتے ہوئے یہ شخص بے ساختہ رو پڑا۔ بیٹے کی علالت کے باعث میں خود پریشان اور اس مفلوک الحال کی حالت زار دیکھ کر اور ہی زیادہ پریشان ہو گیا۔ ہمارے معاشرے اور گرد و پیش میں غربت و افلاس نے جو ڈیرے ڈال رکھے ہیں ان پر کسی بھی ذمہ دار شخص کی نظر نہیں کسی کو احساس نہیں حکومت اور اپوزیشن حصول اقتدار میں اندھے ہو چکے ہیں انہیں ملکی مسائل اور عام آدمی کی حالت زار سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مہنگائی اور بیروزگاری نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ زمینی حقائق بڑے خوفناک ہیں عدم استحکام، انتشار و افراتفری کا دور دورہ ہے۔ دور دور تک بہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔ پوری قوم اللہ سے دعا مانگے کہ حالات میں بہتری آئے۔ قوم کے مسائل حل کرنے کے لئے خوف خدا رکھنے والا کوئی مسیحا آئے جو 15کروڑ سے زائد غربت کی ماری عوام کے بارے میں کچھ سوچے۔ اس بے حال اور نہیات پریشان شخص کو جب میں نے ایوب پارک کی جانب جاتی روڈ پر اتارا تو پوچھا یہاں سے کیسے جاو¿ گے تو کہنے لگا پیدل جاتا ہوں۔ راستے میں ممکن ہے کہ کوئی خوف خدا رکھنے والا ہمدرد مجھے اپنی گاڑی میں بٹھالے۔ جس اللہ نے خالی جیب دیول سے یہاں پہنچایا وہ آگے بھی پہنچا لے گا۔ میں نے اپنا حقیر سا حصہ بقدر جثہ اسے پیش کیا اور ہم دونوں اپنی اپنی راہ پر چل پڑے۔ روزانہ ایسے ہزاروں نہیں لاکھوں مجبور و بے بس لوگ ہیں جن کی جیب خالی ہے یا گنجائش نہیں اور پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ گاڑیوں کے مالکان ڈرائیور بھائی راہ چلتے ایسے مجبور بے بس لوگوں کو اگر گاڑی میں بٹھانے کی جگہ ہے تو ضرور بٹھالیا کریں کیا پتہ کوئی کتنا مجبور ہو اس کی مدد ہو جائے گی۔ اس کے لئے آسانی پیدا ہونے سے ہماری دنیا اور آخرت بن سکتی ہے۔ چھوٹی نیکی سمجھ کر ترک نہیں کرنا چاہیئے۔ غرور و تکبر سے بھی بچنا ضروری ہے۔ آج ہمارے پاس گاڑی کی سہولت ہے تو کل اس سے محروم بھی ہو سکتے ہیں۔ ہمیشہ دوسروں کی مدد اور بھلائی کا جذبہ اور سوچ رکھنے سے اللہ اگر راضی ہو جائیں تو یہ ہماری خوش بختی ہو گی۔ گاڑیوں والے روزانہ سینکڑوں میل خالی گاڑی پر سفر کرتے ہیں۔ اگر اس خالی گاڑی پر کوئی مجبور بے بس غریب بیٹھ جائے اور بچنے والے کرایے کے پیسوں سے اگر اپنے بچوں کو
مٹھائی یا کوئی پھل لے جائے تو کتنی اچھی بات ہے۔ افسوس ہمارا بے حس معاشرہ ہے جسے گرد و پیش کے ایسے حالات سے اور مجبور و گڑیب لوگوں کے حالات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہمارے نزدیک بس بکرا یا کوئی جانور ذبحہ کرنے کا نام صدقہ ہے جبکہ ایسا نہیں صدقہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں ہے جنہیں ہم اہمیت ہی نہیں دیتے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ اپنے جسم کے ہر جوڑ کا صدقہ کرو۔ صحابہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ365جوڑ ہیں اس قدر زیادہ صدقہ کیسے کریں تو آپ نے فرمایا چھوٹی چھوٹی باتوں سے تم یہ صدقہ کر سکتے ہو۔ ضروری نہیں جانور ہی ذبحہ کرو ۔ نقد رقم ہی دو، اپنی زبان سے اپنے ہاتھ سے اپنی اچھی سوچ و فکر سے دوسرے کی رہنمائی اور مدد سے ہم دن میں ہزاروں صدقے کر سکتے ہیں۔ بے بسوں کے دل جیت سکتے ہیں۔ بڑا ہی آسان طریقہ ہے۔ اس حوالے سے کچھ دوستوں سے یہ مسلہ میں نے شیئر کیا تو کچھ ہمدرد دوست کہنے لگے او بھائی کہیں ہمدردی کرتے کرتے جن یا گاڑی سے ہی محروم ہو جاو¿ گے۔ غربت و افلاس یا بے بسی کا لبادہ اوڑھے کئی رہزن اور ڈاکو بھی ہوتے ہیں جو بہانے سے لفٹ لے کر لوٹتے ہیں گاڑیاں چھین لیتے ہیں۔ جان سے مار ڈالتے ہیں ایسے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ میں نے عرض کی سب ڈاکو یا رہزن نہیں ہوتے اکثریت مجبور و بے بس لوگوں کی ہے۔ میں عموماً راستے میں عمر رسیدہ شخص کو ضرور بٹھاتا ہوں۔ نوجوانوں کو کم بٹھاتا ہوں اس لئے کہ صحت مند نوجوان پیدل بھی چل سکتا ہے اور محنت و مزدوری بھی کر سکتا ہے جبکہ عمر رسیدہ شخص ہماری توجہ کا مستحق ہے اس لئے گزارش ہے کہ گاڑیوں کے مالکان ڈرائیورز خواہ پرائیویٹ سیکٹر سے ہیں یا سرکاری اس کار خیر میں ضرور حصہ لیں اور مجبوروں و بے بسوں کی دعائیں لیں۔ تین آدمیوں کی دعا اور بددعا کبھی بھی رد نہیں ہوتی۔ ایک والدین، دوسرا مظلوم اور تیسرا مسافر۔ ایسے مجبور و غریب مسافر ہمارے لئے نجات کا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں۔