پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نفرت اور تقسیم کی سیاست عروج پر پہنچ چکی ہے، اب ہمیں اس بخار کو توڑنا ہوگا۔ بلاول بھٹو زرداری نے شیخ ایاز میلے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے شیخ ایاز میلے میں آکرخوشی ہوئی ہے، یہ 9 واں میلہ ہے جو ایک بڑی کامیابی ہے، اگر ہم شاعر، آرٹسٹ اور کلچر کو اجاگر نہ کریں گے تو پاکستان نہیں چل سکے گا، اگر ہمیں جدید ماڈرن ملک بنانا ہے، مسائل اور خطروں کا مقابلہ کرنا ہے اور دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو تاریخ اور ثقافت کو اجاگر کرنا ہوگا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ انتہا پسندی کی سوچ کو ایک حد تک روکا گیا ہے، اگر ہر سیاسی جماعت ایک دوسرے کو غدار، کافر کہے گی تو کیسے ملک کو چلائیں گے،سیاست کا مقصد ذاتی دشمنی نہیں ہونا چاہئے، پیپلزپارٹی میں صلاحیت ہے سب کو ساتھ لیکر چل سکتی ہے۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں تقسیم، نفرت رہے، ہمیں مل کر تمام خطرات کا مقابلہ کرنا ہے، تقسیم میں نہیں اتحاد میں جیت ہے، اگر نوجوانوں متحد ہوگئے تو تقسیم کی سیاست کرنے والوں کو شکست ہوگی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلیم گیم کی سیاست نے ہماری قومی سیاست کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ ویسے تو بلیم گیم کی سیاست ہر دور میں عروج پر رہی ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے منفی سیاست کا سہارا لیتی رہی ہیں اور مفاداتی سیاست کے تابع ہو کر ملکی مفادات پر بھی سمجھوتہ کیا جاتا رہا ہے تاہم بلیم گیم کی سیاست کو سب سے زیادہ پی ٹی آئی دور میں فروغ حاصل ہوا۔ اس کی قیادت نے اپوزیشن قائدین کو چور‘ ڈاکو جیسے القابات سے نوازا اور اپنے چار سالہ دور اقتدار میں قومی سیاست کے بجائے ذاتی دشمنی والی سیاست کو پروان چڑھایا۔ پی ٹی آئی کے چاہنے والوں نے تو سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کو ایسا رواج دیا جس سے قومی سیاست کے بجائے ذاتی دشمنی اور عناد کا پہلو اجاگر ہوا‘ اس سے ملک کا امیج بھی متاثر ہوا اور نفرت اور تقسیم کا پہلو اجاگر ہوا۔ بے شک سیاست میں پوائنٹ سکورنگ جمہوریت کا حسن ہوتا ہے مگر ایک دوسرے کو غدار‘ کافر جیسے القابات سے نوازنا کسی طرح بھی قومی سیاست کے زمرے میں نہیں آتا۔ بلاول بھٹو زرداری نے درست کہا ہے کہ سیاست کا مقصد ذاتی ذشمنی نہیں ہونا چاہیے‘ متحد ہو کر خطرات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ملک بھر میں انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے‘ اس موقع پر سیاسی قیادتوں کو عوام کے سامنے اجتماعی سوچ کو پروان چڑھانا اور سیاسی اختلافات بھلا کر تعمیری سیاست کا آغاز کرنا چاہیے‘ اسی طرح منفی سیاست کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔