سیاسی لیڈران کی بھینس کے گوبر کو حلوا ثابت نہ کریں

آج کل پاکستانی سیاستدان عوام کے ساتھ عاشقی فیز سے گزر رہے ہیں۔ الیکشن کی گردش کرتی گرم خبروں سے عوامی حلقوں میں ان کے منتخب کردہ کونسلرز یوں نکل آئے ہیں جیسا کہ برسات میں مینڈک۔ ایسے ایسے چہرے نظر آ رہے ہیں جن کا دیدار الیکشن مہم کے دوران ہی ہوا کرتا ہے۔ اس سال بھی کچھ مختلف ہونے کے چانسز نہیں وہی یوٹیوب اور ٹک ٹاک کی سیاست کرنے والے کروڑوں کی گاڑی سے نکلیں گے اور دس دس گن مین ان کے ہمراہ ہوں گے۔ پژمردہ عوام کو جادوئی جپھی ڈال کر کہیں گے، ’او ہم آپ کے خادم جی۔۔۔ او ہم آپ کے نوکر جی‘۔ 
عجب نہیں کہ ہم خوب ادارک رکھتے ہوئے پھر ان کی روایتی دروغ گوئی کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ گویا کہ ایک بین ہے جو وہ بجاتے ہیں اور ہم جواباً نشے میں سرمست ہوکر تالیاں بجاتے ہیں۔ الیکشن کی آمد کے ساتھ ہی جلوسوں اور ورکرز کنونشنز کے نام پر عوام کا برین واش کیا جاتا ہے۔ کیا آپ نے نوٹ نہیں کیا کہ اپنے مفاد کی خاطر سبھی سیاستدان باہمی شیروشکر ہو جاتے ہیں اور ملکی مفاد کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ جب اپنا مفاد پورا ہو جاتا ہے تو کرپشن کا الزام لگا کر ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالنے کے دعوے کرتے ہیں۔ ان کے اس سیاسی ناٹک کو ’جونی چکر ‘ کہیے یا موت کے کنوئیں کا وہ چکر جو اسٹنٹ مین بار بار لگاتا ہے۔ عبدالحئی تاباں کا یہ شعر مذکورہ بالا حالات کی صحیح ترجمانی کرتا ہے کہ
آشنا ہو چکا ہوں میں سب کا
جس کو دیکھا سو اپنے مطلب کا
دوسری جانب یہی سیاسی نمائندگان جب ہمارے ووٹ کے ذریعے اعلیٰ عہدوں پر متمکن ہوتے ہیں تو وہ پیار محبت والا بخار دفعتاً اتر چکا ہوتا ہے اور جناب اپنے اصلی روپ میں آ چکے ہوتے ہیں کہ ’توں کون تے میں کون؟‘ ایک ہی اسٹیٹمنٹ میڈیا پر دی جاتی ہے کہ ’ حالات بڑے خراب ہیں گزشتہ حکومت خزانہ خالی کر گئی ہے ہمیں ٹائم دیا جائے ہم عوام کو ریلیف نہیں دے سکتے‘۔ جون ایلیا نے ان کی اخلاقی حالت پہ کیا خوب کہا ہے کہ
ہے سیاست سے تعلق تو فقط اتنا ہے 
کوئی کم ظرف مرے شہر کاسلطان نہ ہو
بیچارے عوام نوزائیدہ حکومت کو پھر سے وقت دے دیتے ہیں لیکن عوام کا بھلا کسی طریقے سے نہیں ہوتا۔ یہی سیاستدان تگڑے سے تگڑے بن جاتے ہیں۔ بسا اوقات مخالف پارٹی کے سیاستدان براجمان پارٹی کو یہ طعنہ مارتے بھی نظر آتے ہیں کہ بائیک چلانے والا اربوں پتی کیسے بن گیا؟ سیاستدانوں کے موجودہ حالات دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ سینیٹ کا نام تبدیل کرکے کون بنے گا کروڑ پتی رکھا جائے۔ حیف صد حیف کہ ہم سیاسی لحاظ سے یتیم ہیں۔ پاکستان کو باصلاحیت  اور اہل قیادت میسر نہ آ سکی۔ پاکستان میں جمہوریت کہاں ہے بلکہ مورثیت اب ذیادہ لگتی ہے کہ سیاسی قائدین کی اولاد ان کی سرکردگی میں ساشے پیک میں دستیاب ہے اور اپنا سیاسی کیرئیر بنانے کے لیے بیقرار ہے۔ یہ پاکستانی عوام کے مسائل سے ہی آگاہ نہیں ہیں۔۔۔ ایسے میں خدمت کیا ہوگی۔ پاکستانی عوام بجلی،گیس کی لوڈشیڈنگ ، فصلوں کی تباہی، فوگ سموگ کی انہونیاں، مختلف اقسام کی بیماریاں، دہشت گردی، سٹریٹ کرائم اور نہ جانے کیا کیا دکھ جھیل رہے ہیں۔ میرے خیال میں اتنے دکھ سہہ سہہ کر پاکستانی عوام ربڑ کے بن گئے ہیں کہ کسی انقلاب کی تمنا ان کے دلوں میں نہیں رہی۔اپنے سیاسی لیڈران سے اگر آپ کو عقیدت ہے تو ضرور اسکا اظہار کیجئے مگر ان کی بھینس کے گوبر کو حلوا ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں۔ حق بات کہنے کا احساس اگر مر گیا ہے تو آپ عنقریب وڑ جائیں گے۔۔۔ کدھر وڑ جائیں گے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں۔ حقیقت بات ہے کہ جو قوم گٹر نالیاں اور گلیاں پکی کروانے پر ووٹ دے اس کے بچوں کا مستقبل کچا رہتا ہے۔ یہ بات دلوں میں پیوست کر لیجئے کہ اگر "گڈ گورننس" سر چڑھ کر بولتی تو پاکستان کے یہ حالات نہ ہوتے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ خود ہی سیاسی لیڈر منتخب کرکے اسے حاکم وقت بنایا جاتا ہے تو چند ماہ گزرنے کے بعد اسے ہی طعن و تشنیع کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے شائد فیض احمد فیض نے ہمارے طوروطریقوں کو بھانپتے ہوئے یہ اشعار کہے۔
چلتے ہیں دبے پاؤں کوئی جاگ نہ جائے
غلامی کے اسیروں کی یہی خاص ادا ہے
ہوتی نہیں جو قوم۔۔۔ حق بات پہ یکجا
اْس قوم کا حاکم ہی بس اْن کی سزا ہے
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن