شفاف انتخابات کے تقاضے

Dec 23, 2023

قیوم نظامی

8 فروری 2024ء کے انتخابات اپنے انعقاد سے پہلے ہی متنازعہ بنائے کی کوشش ہو رہی ہے- حیران کن طور پر پاکستان بار کونسل سپریم کورٹ بار اور سندھ ہائیکورٹ بار کے عہدیداران نے ایک ہی روز انتخابات کے سلسلے میں اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں- دو ٹوک الفاظ میں چیف الیکشن کمشنر کی اہلیت پر سوالات اٹھا دئیے ہیں اور دعویٰ کیا کیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر آئین کے تقاضوں کے مطابق شفاف انتخابات کرانے کے اہل نہیں ہیں لہذا انہیں اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہو جانا چاہیے - تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی چیف الیکشن کمشنر پر شدید الفاظ میں تنقید کرتے رہے ہیں مگر اب وہ ان کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات پر رضامند نظر آتے ہیں- پاکستان کے نامور بیرسٹر برادرم اعتزاز احسن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ میاں نواز شریف انتخابات ملتوی کرانا چاہتے ہیں لہذا انہوں نے اپنے حامی وکلاء کی جانب سے بیان جاری کرایا ہے-
 2024ء کے انتخابات مشکل سیاسی اور معاشی حالات میں ہورہے ہیں لہذا شفاف انتخابات کرانا قومی مفاد میں ہے- شفاف انتخابات کے حوالے سے پاکستان کی انتخابی تاریخ افسوس ناک رہی ہے- انتخابات پر تین قسم کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں- انتخابات سے پہلے دھاندلی پولنگ ڈے پر دھاندلی اور پولنگ کے بعد دھاندلی جو ووٹوں کی گنتی کے دوران اور انتخابی نتائج کا اعلان کرتے وقت کی جاتی ہے-
 انتخابی تاریخ کے ماہرین درست کہتے ہیں کہ موجودہ جمہوری انتخاب میں ووٹ دینے والوں کی نسبت ووٹ گننے والے زیادہ اہم ہوتے ہیں- پاکستان میں ووٹوں کا نہیں بلکہ نوٹوں کا مقابلہ ہوتا ہے- جمہوریت اور انتخابات کو مانیٹر کرنے والی تنظیم پلڈاٹ اور یو این ڈی پی نے سفارش کی ہے کہ امیدوار کو دو سے زیادہ نشستوں پر انتخابات لڑنے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخابات جیتنے والے امیدوار جب ایک کے علاؤہ باقی نشستوں سے دستبردار ہوتے ہیں تو خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب کرانا پڑتا ہے-
 ایک ضمنی انتخاب پر 3 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں جو قومی خزانے پر بوجھ ہیں- ہندوستان میں ایک امیدوار کو دو انتخابی حلقوں بنگلہ دیش میں 3 حلقوں سے انتخابات لڑنے کی اجازت ہے جبکہ برطانیہ میں کوئی امیدوار ایک سے زیادہ حلقوں میں انتخاب نہیں لڑ سکتا - عمران خان نے گزشتہ سال 8 ضمنی انتخابات میں حصہ لیا تھا -
پاکستان فریڈم موومنٹ کے چیئرمین نامور بزنس مین برادرم ھارون خواجہ نے چیف الیکشن کمشنر کے نام خط لکھ کر شفاف انتخابات کے لیے قابل توجہ اور قابل عمل تجاویز دی ہیں- ان تجاویز میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بیلٹ پیپر پر NO کا آپشن رکھا جائے- بیلٹ پیپر کے آخری خانے میں " کسی کو نہیں" درج کیا جائے- بھارت اور بنگلہ دیش دونوں ملکوں میں یہ آپشن رکھا گیا ہے جس سے ووٹرز ٹرن آؤٹ کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے-پاکستان فریڈم موومنٹ کی سفارشات میں تحریر کیا گیا کہ بینرز بل بورڈز اور پوسٹرز پر مکمل پابندی عائد کی جائے تاکہ انتخابی اخراجات کم ہو سکیں اور لوئر مڈل کلاس کے افراد کے لیے انتخابات لڑنے کی گنجائش پیدا ہو سکے- پولنگ ڈے پر امیدوار کی جانب سے ٹرانسپورٹ فراہم کرنے پر پابندی عائد کی جائے تاکہ سیاست میں سرمایہ کاری کے رجحان کو ختم کیا جاسکے - آئین کے آرٹیکل نمبر 62 اور 63 کی روشنی میں امیدواروں کی مکمل چھان بین کی جائے تاکہ شفاف کردار کے حامل افراد عوام کی بہتر نمائندگی کر سکیں- میڈیا پر تمام سیاسی جماعتوں کو مساوی کوریج دی جائے- پاکستان فریڈم موومنٹ نے امیدوار کی اہلیت اور اس کے کردار کی شفافیت پر زور دیا ہے اور اس کے لیے 24 شرائط پیش کی ہیں-
  پاکستان کی انتخابی تاریخ میں صاف اور شفاف انتخابات پر بہت زور دیا گیا مگر امیدواروں کے شفاف کردار پر زور نہ دیا گیا جس کے نتیجے میں مشکوک کردار کے حامل افراد بھی بار بار منتخب ہوتے رہے- امیدوار کو تولنا لازم ہوچکا ہے- پاکستان کے بیدار اور باشعور افراد کی رائے ہے کہ انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر ہونے چاہئیں تاکہ اسمبلیوں میں عوام کی نمائندگی وسیع ہوسکے- ڈیجیٹل مشین کے استعمال سے دھاندلی کے امکانات کو ختم کیا جا سکتا - امیدوار کی تعلیم کم از کم  بی اے ہونی چاہیے - ووٹر کے لیے اگر میٹرک پاس کی شرط عائد کر دی جائے تو سیاسی اور جمہوری نظام مستحکم ہو سکتا ہے- الیکشن کمیشن پاکستان سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے مرتب کروائے گئے ضابطہ اخلاق پر مکمل عملدرآمد کرائے- دہشت گردی کی لہر کے پیش نظر عوامی اجتماعات پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور صرف انتخابی حلقوں میں کارنر میٹنگ کی اجازت دی جائے جن کو سیکورٹی کے ادارے محفوظ بنا سکیں-سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے گھر پر حملہ افسوس ناک اور شرمناک ہے - اس واقعہ میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے تاکہ سیکورٹی اداروں پر عوام کا اعتماد متزلزل نہ ہو-
قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اگر فروری 2024ء کے انتخابات شفاف اور یکساں نہ ہوئے تو پاکستان کے اندرونی استحکام کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے- انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے لازم ہے کہ کلیدی حکومتی منصبوں پر غیر جانبدار افسران کو تعینات کیا جائے - جماعت اسلامی نے 1993ء کے انتخابات میں ایک سلوگن" ظالمو قاضی آرہا ہے" دیا تھا - 
جو لوگ انتخابات کو ملتوی کرانا چاہتے ہیں ان کو خبر ہو کہ" ظالمو قاضی ا چکا ہے"  پوری قوم کی نظریں پاکستان کے چیف جسٹس محترم قاضی فائز عیسیٰ پر لگی ہیں- وہ عدالتی تاریخ اور اپنی زندگی کا اہم ترین باب رقم کر رہے ہیں- ان کے سامنے مسائل اور مشکلات کا ایک پہاڑ کھڑا ہے- رب کائنات سے التجا ہے کہ وہ چیف جسٹس پاکستان کو شفاف اور یکساں انصاف کی توفیق عطا فرمائے اور وہ آئین اور قانون کے مطابق پاکستان میں شفاف انتخابات کا انعقاد کرا سکیں-

مزیدخبریں