اسلام آباد (اعظم گِل/خصوصی رپورٹر+ وقائع نگار) سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی 10،10لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت منظورکرلی ہے۔ سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ فیصلے میں دی گئی آبزرویشنز ٹرائل کو متاثر نہیں کریں گی اور بانی پی ٹی آئی ضمانت کا غلط استعمال کریں تو ٹرائل کورٹ اسے منسوخ کر سکتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پر جرم ثابت نہیں ہوا، وہ معصوم ہیں، انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کے لیے اچھی بنیاد ہے۔ سپریم کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود کی درخواست ضمانت پر سماعت قائم مقام چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ تین رکنی بنچ میں شامل تھے۔ سماعت کے آغاز پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے مؤقف پیش کیا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر نوٹس نہیں ہوا۔ جس پر قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ابھی نوٹس کر دیتے ہیں آپ کو کیا جلدی ہے۔ عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لئے ہیں۔ جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپیڈی ٹرائل ہر ملزم کا حق ہوتا ہے، آپ کیوں چاہتے ہیں ٹرائل جلدی مکمل نہ ہو۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ان کیمرہ ٹرائل کے خلاف آج ہائیکورٹ میں بھی سماعت ہے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ دوسری درخواست فرد جرم کے خلاف ہے۔ جس پر جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ جو فرد جرم چیلنج کی تھی وہ ہائیکورٹ ختم کرچکی ہے، نئی فرد جرم پر پرانی کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ ٹرائل اب بھی اسی چارج شیٹ پر ہو رہا ہے جو پہلے تھی۔عدالت نے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے خلاف کیس کی سماعت ملتوی کردی اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر ایف آئی اے کو نوٹس جاری کردیا۔ جبکہ دونوں ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت جاری رہی۔ وکیل سلمان صفدر نے عدالت میں مؤقف پیش کیا کہ سائفر کیس میں وزارت داخلہ کے سیکرٹری شکایت کنندہ ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں طلبی پر7 ماہ حکم امتناع دے رکھا ہے۔ سات ماہ تک ایف آئی اے نے خاموشی اختیار کی، اور توشہ خانہ میں ضمانت ہوتے ہی گرفتار کر لیا، سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں گرفتارکرنے کی 40 مرتبہ کوشش کی گئی۔ ایف آئی اے کے مطابق تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان پر میٹنگ منٹس توڑ مروڑ کر تحریر کرنے کا الزام ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق تحقیقات کے بعد مقدمہ درج کیا گیا ہے، تعین کے باوجود نہ اعظم خان کو نہ ہی اسد عمر کو گرفتارکیا گیا اور اعظم خان ملزم کے بجائے سائفر کیس کے مقدمے کے اندراج کے اگلے دن گواہ بن گئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے کو کیسے معلوم ہوا کہ بنی گالا میں میٹنگ ہوئی تھی۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ ایف آئی اے ہی بتا سکتا ہے، اب تک پراسیکیوشن نے ذرائع نہیں بتائے، سائفر وزارت خارجہ سے آیا، پراسیکیوشن کے مطابق سکیورٹی سسٹم رسک پر ڈالا گیا، وزارت خارجہ نے سائفر سے متعلق کوئی شکایت نہیں کی۔ سلمان صفدر نے الزام عائد کیا کہ سابق وزیراعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، رانا ثناء اللہ نے بطور وزیر داخلہ ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے کا کہا۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ کیس کو قانونی تک رکھیں سیاسی طرف نہ لے کر جائیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ سائفر کوڈز کی صورت میں آتا ہے، وزارت خارجہ کبھی بھی کوڈز پر مبنی سائفر وزیراعظم کو نہیں دیتا، وزارت خارجہ وزیراعظم کو سائفر کا ترجمہ یا بریفنگ دیتی ہے۔ وکیل سلمان صفدر نے مؤقف اختیار کیا کہ سائفر کوڈز ہر ماہ تبدیل ہوتے ہیں، سائفر کا انگریزی ترجمہ متعلقہ لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پراسیکویشن کا کیا کہنا ہے سائفر کس کے ساتھ شیئر کیا گیا۔ وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ سائفر کسی کے ساتھ کبھی شیئر نہیں کیا گیا، جلسے میں کہیں نہیں کہا کہ سائفر میں کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ سابق وزیراعظم کو جیل میں رکھنے سے معاشرے کو کیا خطرہ ہوگا۔ جس پر وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ دفعہ 164 کا بیان ملزم کا اعترافی بیان ہوتا ہے، اعظم خان کے اہلخانہ نے انکی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا، اعظم خان دوماہ لاپتہ رہے، یہ اغوا برائے بیان کا واقعہ ہے۔ قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اغوا برائے تاوان تو سنا تھا اغوا برائے بیان کیا ہوتا ہے۔ جس پر وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ میرے لئے سب سے آسان الفاظ اغوا برائے بیان کے ہی تھے۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ اغوا برائے بیان اچھی اصطلاح ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا تفتیشی افسر نے اعظم خان کی گمشدگی پر تحقیقات کیں۔ جس پر وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اعظم خان کا بیان دباؤ کا نتیجہ ہے۔ تفتیشی افسر نے کوئی تحقیقات نہیں کیں، اعظم خان نے واپس آتے ہی سابق وزیراعظم کے خلاف بیان دے دیا۔ پریڈ گرائونڈ میں 27 مارچ 2022 کے جلسے میں شاہ محمود قریشی کی تقریر پڑھ دی اور کہا کہ شاہ محمود قریشی نے تقریر میں کہا کہ بہت سے راز ہیں لیکن حلف کی وجہ سے پابند ہوں سامنے نہیں رکھ سکتا۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ وزیرخارجہ خود سمجھدار تھا سمجھتا تھا کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں، وزیر خارجہ نے سائفر کا کہا کہ بتا نہیں سکتا اور سابق چیئرمین کو پھنسا دیا کہ آپ جانیں اور عمران جانے، شاہ محمود خود بچ گئے اور سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو کہا کہ سائفر پڑھ دو۔ وکیل سلمان صدر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے بھی پبلک سے کچھ شئیر نہیں کیا تھا، اگر سائفر پبلک ہو ہی چکا ہے تو پراسیکیوشن کو سائفر ٹرائل ان کیمرہ کیوں چاہیے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کس بنیاد پر پراسیکیوشن سمجھتی ہے کہ ملزمان کو زیرحراست رکھنا ضروری ہے۔ جس پر وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ اعظم خان نے بیان دیا کہ سابق وزیراعظم سے سائفر مانگا تو انہوں نے کہا گم گیا ہے، سابق وزیراعظم نے ملٹری سیکرٹری کو بھی سائفر تلاش کرنے کا کہا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اعظم خان کے بیان میں واضح ہے کہ وزیراعظم کے پاس موجود دستاویز سائفر نہیں تھی۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان نے کہا ان کی موجودگی میں ہی بنی گالہ میں وزارت خارجہ نے بریفننگ دی۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ سیکرٹری خارجہ ملزم ہیں یا گواہ؟۔ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس وقت کے سیکرٹری خارجہ گواہ ہیں۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ وزارت خارجہ نے 17 ماہ تک سائفرکی کاپی وزیراعظم سے نہیں مانگی، اعظم خان کے مطابق سابق وزیراعظم عسکری قیادت پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے، اعظم خان نے کہا بنی گالہ میٹنگ کے بعد سائفر کو پبلک میں لہرانے کا فیصلہ ہوا، جس جلسے میں کاغذ لہرایا گیا وہ میٹنگ سے ایک دن پہلے ہوچکا تھا۔ وکیل سلمان صفدر نے سابق سفیر اسد مجید کا بیان بھی پڑھ کر سنا دیا، اور سوال اٹھایا کہ اگر کچھ غلط نہیں ہوا تھا تو امریکی سفیر کو بلا کر احتجاج کیوں کیا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کس بنیاد پر پراسیکیوشن سمجھتی ہے کہ ملزمان کو زیرحراست رکھنا ضروری ہے۔ عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وکیل سلمان صفدر نے مؤقف پیش کیا کہ سابق وزیراعظم کوسیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، چالیس مقدمات میں ضمانت قبل ازگرفتاری منظور ہوچکی ہے، کسی بھی سیاسی لیڈر کیخلاف ایک شہر میں چالیس مقدمات درج نہیں ہوئے۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم ریاستی دشمن نہیں بلکہ سیاسی دشمن ہیں، سابق وزیراعظم نے خط کے مندرجات کسی سے شیئر نہیں کیے، امریکی سفیر کو بلا کر کہا گیا احتجاج غلط ہے یا پھر سائفرکا مقدمہ، شہباز شریف نے بھی قومی سلامتی کونسل کے نکات کی توثیق کی تھی۔ سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل مکمل کر لئے تو شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے دلائل کا آغاز کردیا۔ وکیل علی بخاری نے مؤقف پیش کیا کہ شاہ محمود قریشی پر سائفر رکھنے کا الزام ہے نہ شیئر کرنے کا، ان پر واحد الزام تقریر کا ہے، اور الزام کا جائزہ عدالت پہلے ہی لے چکی ہے، شاہ محمود قریشی 10دن ریمانڈ پر رہے، کوئی برآمدگی نہیں ہوئی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا شاہ محمود قریشی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ جس پر وکیل علی بخاری نے کہا کہ وہ آج کاغذات جمع کرائیں گے۔ جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کیلئے اچھی بنیاد ہے۔ پراسیکویٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سائفر کی ایک ہی اصل کاپی تھی جو دفترخارجہ میں تھی، سائفر دفتر خارجہ کے پاس ہے تو باہر کیسے نکلا ہے۔ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ حساس دستاویزات کو ہینڈل کرنے کیلئے رولز موجود ہیں۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ رولزکی کتاب کہاں ہیں۔ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ رولز خفیہ ہیں اس لئے عدالت کی لائبریری میں نہیں ہوں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ رولز کیسے خفیہ ہوسکتے ہیں۔ جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ یہ ہدایت نامہ ہے جو صرف سرکارکے پاس ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ڈی کوڈ ہونے کے بعد بننے والا پیغام سائفر نہیں ہوسکتا۔ جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سائفر کا مطلب کیا ہے۔ جسٹس سردار طارق کے سوال پر جواب دیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سائفر کا مطلب ہی کوڈڈ دستاویز ہے، ڈی کوڈ ہونے کے بعد وہ سائفر نہیں رہتا۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ سائفر جب ڈی کوڈ ہوگیا تو سائفر نہیں رہا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سائفرکے حوالے سے قانون دکھائیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ کیا سیکرٹری خارجہ نے وزیراعظم کو بتایا تھا کہ یہ دستاویز پبلک نہیں کرنی، تفتیشی افسر کو سیکرٹری خارجہ کے بیان میں کیا لکھا ہے، پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ سیکرٹری خارجہ نے میٹنگ میں یہ بات کہی تھی۔ جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ سیکرٹری خارجہ نے تحریری طورپر کیوں نہیں آگاہ کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا تفتیشی افسر نے حساس دستاویزات پر مبنی ہدایت نامہ پڑھا ہے، تفتیشی رپورٹ میں کیا لکھا ہے کہ سائفر کب تک واپس کرنا لازمی ہے، نہ پراسیکیوٹر کو سمجھ آرہی ہے نہ تفتیشی افسر کو۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ کیا گواہان کے بیانات حلف پر ہیں۔ جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ گواہی حلف پر ہوتی ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ کے مطابق گواہ کا بیان حلف پر نہیں ہے، کیا اعظم خان کی گمشدگی کی تحقیقات کی ہیں۔ جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ اعظم خان نے واپس آنے کے ایک ماہ بعد بیان دیا۔ قائم مقام چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ ایک ماہ اعظم خان خاموش کیوں رہا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا اعظم خان شمالی علاقہ جات گئے تھے۔ جس پر پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے جواب دیا کہ اعظم خان کے مطابق ان پر پی ٹی آئی کا دباؤ تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عباسی صاحب ایسی بات نہ کریں جو ریکارڈ پر نہ ہو۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے سوال کیا کہ شہباز شریف نے کیوں نہیں کہا کہ سائفر گم گیا ہے، انہوں نے کس دستاویز پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیا تھا۔ رضوان عباسی نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں سائفر پیش ہوا تھا۔ جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا اصل سائفر پیش ہوا تھا؟ یہ کیسے ممکن ہے۔ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ڈی کوڈ کرنے کے بعد والی کاپی سلامتی کمیٹی میں پیش ہوئی تھی۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سائفر کیس میں سزائے موت کی دفعات بظاہر مفروضے پر ہیں، سائفر معاملے پرغیر ملکی قوت کو کیسے فائدہ پہنچا۔جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا حکومت 1970 اور 1977 والے حالات چاہتی ہے، نگران حکومت نے آپ کو ضمانت کی مخالفت کرنے کی ہدایت کی ہے، ہر دور میں سیاسی رہنمائوں کیساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے، سابق وزیراعظم کے جیل سے باہر آنے سے کیا نقصان ہوگا۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس وقت سوال عام انتخابات کا ہے، اس وقت سابق چی?رمین پی ٹی آ?ی نہیں عوام کے حقوق کا معاملہ ہے، اور عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے، سابق وزیراعظم پرجرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں۔جسٹس سردارطارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے توفیصلہ ہی کردیا ہے ماشااللہ، اب خالی رسی ہی رہ گئی ہے، یہ بتائیں کہ سائفر دستیاب نہیں تھا تو سلامتی کمیٹی کے دو اجلاس کیسے ہوئے۔ جس پر پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے جواب دیا کہ سیکرٹری خارجہ کا بیان ہے انہوں نے اجلاس میں ماسٹر کاپی پیش کی۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اسد مجید کے بیان میں کہیں نہیں لکھا کسی دوسرے ملک کوفائدہ پہنچا ہے، عدالت سائفر پبلک کرنے کو درست قرار نہیں دے رہی لیکن بات قانون کی ہے، سزائے موت کی دفعات عائد کرنے کی بنیاد کیا ہے وہ واضح کریں، کسی گواہ کے بیان سیثابت نہیں ہو رہا کہ کسی غیر ملکی طاقت کو فائدہ ہوا ہے۔جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں مقدمہ ان کیمرا چلے گا لیکن گواہان کے بیان پڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔پراسیکیوٹررضوان عباسی نے مؤقف پیش کیا کہ بھارت میں سائفر لہرانے پر بہت واویلا ہوا۔ جس پر اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کل بلوچ فیملیز کیساتھ جو ہوا اس پر کیا کچھ واویلا نہیں ہوا ہوگا۔پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ دوطرفہ تعلقات متاثر ہونے سے دشمن کو فائدہ ہوگاعدالت نے دلائل سننے کے بعد سائفرکیس میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظورکرلی۔ عدالت نے دونوں ملزمان کی 10،10لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کیعوض ضمانت منظور کی ہے بعد ازاں کچھ دیر بعد سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں بانی چیئرمین عمران خان اور رہنما شاہ محمود قریشی کی ضمانت کا چار صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خفیہ معلومات کو غلط انداز میں پھیلانے کی سزا دو سال ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی جن شقوں کا اطلاق سائفر کیس میں کیا گیا وہ قابل ضمانت ہیں۔عدالت عظمی نے کہا کہ عمران خان نے دوسرے ملک کے فائدے کے لیے سائفر کو پبلک کیا ایسے کوئی شواہد نہیں ملے، فیصلے میں دی گئی آبزویشنز ٹرائل کو متاثر نہیں کریں گی، بانی پی ٹی آئی ضمانت کا غلط استعمال کریں تو ٹرائل کورٹ اسے منسوخ کر سکتی ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق (3) 5 بی کے تحت سزا 14 سال ہے جو کہ ناقابل ضمانت ہے، دستیاب مواد سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بانی چیئرمین نے سائفر کسی غیر ملک طاقت کو فائدہ دینے کے لیے استعمال کیا، یقین کرنے کیلئے ایسی معقول وجہ نہیں ہے کہ بانی چیئرمین نے آفیشل سکریٹ ایکٹ کی شق پانچ کی ذیلی شق تین بی کے جرم کا ارتکاب کیا یا نہیں یہ بات حتمی طور پر ٹرائل کورٹ ہی طے کری گی۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کا عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ضمانت نہ دینا دستیاب مواد کے خلاف ہے ہائی کورٹ نے ضمانت نہ دے کر حقائق کے برخلاف رائے دی۔جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں اضافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار معاشرے کے خلاف جرم میں ملوث نہیں،ملزمان کی گرفتاری کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا پورا ٹرائل دستاویزات شواہد پر منحصر ہے ملزمان کی انتخابات کے دوران رہائی کے ذریعے اصلی انتخابات کو یقینی بنائیں گے، کیس میں ایسے حالات نہیں کہ ضمانت مسترد کی جائے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کی خواہش کا اظہار انتخابی عمل سے ہی ممکن ہے، عوام کا حق رائے دہی استعمال کرنا آئینی حق ہے جس کے لیے ہر سیاسی جماعت کے امیدوار کو بلا خوف و خطر یکساں مواقع ملنے چاہئیں، اصل انتخابات وہی ہوتے ہیں جس میں ووٹر آزادانہ حق رائے دہی استعمال کرسکے۔جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ ’جب ہر سیاسی جماعت کو یکساں طور پر مواقع نہ ملیں تو یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، درخواست گزاران پر ایسے سنگین الزامات نہیں ہیں جس کے معاشرے کو خطرہ ہوحقیقی انتخابات کیلئے درخواست گزاران کو ضمانت ملنا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی عدالت نے سائفر کیس میں ان کیمرہ ٹرائل کے خلاف بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ملتوی کردی۔
اسلام آباد ( عترت جعفری ) الیکشن کمیشن اف پاکستان کی طرف سے پی ٹی آئی پارٹی الیکشن کالعدم کئے جانے کے بعد فیصلہ کے بعد پی ٹی آئی الیکشن کی ریس سے باہر ہو گئی ہے، تاہم ان کے پاس اپیل کا حق موجود ہے ، اس وقت جبکہ الیکشن کے لئے امیدواروں کی طرف سے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرنے میں دو روزہ توسع شدہ معیاد میں ایک روز باقی رہ گیا ہے پی ٹی ائی کے تمام امیدواروں کو آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنا پڑے گا، اب وہ خود کو پی ٹی ائی کے امیدوار کے طور پر ظاہر نہیں کر سکتے، الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے بعد پی ٹی ائی کے انٹر پارٹی الیکشن میں چئیر مین گوہر علی سمیت منتخب ہونے والے عہدیداروں کے مناصب کالعدم ہو گئے ہیں ، پی ٹی ائی نے اس فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں جانے کا اعلان کیا ہے اور ان کے سابق چیئرمین علی گوہر کے مطابق وہ اپیل کے لئے پشاور ہائی کورٹ جائیں گے، تاہم قانون کے ماہر اکرام چودھری نے کہا کہ پی ٹی ائی کو سپریم کورٹ سے براہ راست رجوع کرنا چاہیے، اکرام چودھری نے کہا کہ الیکشن کمیشن اف پاکستان کے فیصلہ کے بعد پی ٹی ائی کے رجسٹریشن نہیں رہی ہے، اس لیے اسے بلے کا نشان نہیں مل سکتا، اور پارٹی امیدوار اب خود کو اس جماعت کا امیدوار ظاہر نہیں کر سکتے ہیں، انہیں ازاد حیثیت سے الیکشن لڑنا ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ائی کو برا ہ راست سپریم کورٹ میں چلے جانا چاہیے، اکرام چوہدری نے کہا کہ پی ٹی ائی کے لیے بہت مشکل صورتحال پیدا ہو گئی ہے، اور رائٹ اف ووٹ متاثر ہوا ہے، پی ٹی ائی سے تعلق رکھنے والے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ پارٹی ہائی کورٹ سے رجوع کرے گی، الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست نہیں ہے، الیکشن کے قوانین کے ھوالے سے کام کرنے والے وکیل حسن صدیقی ایڈوکیٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ پی ٹی آئی کے لئے فیصلہ کن دھچکا ہے، ان کے حالیہ انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بلے کے مطلوبہ نشان سے انکار کر دیا ہے۔ شفافیت اور پارٹی کے اپنے آئین کی پاسداری کے خدشات میں جڑا یہ فیصلہ پی ٹی آئی کے مستقبل کو تباہی میں ڈال دیتا ہے۔ انتخابی نشان کی اہم پہچان ہوتا ہے ،۔ پی ٹی آئی کے لیے سیاسی میدان میں اپنی جگہ دوبارہ حاصل کرنے کے لیے قانونی جنگ لڑنا ہو گی ،ہیں الیکشن کمشن کے سامنے سوال تھا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات ان کے اپنے اندرونی آئین کے مطابق ہوئے تھے یا نہیں۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر، 2002 میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ پارٹیوں کو اپنے آئین اور متعلقہ ای سی پی ضوابط کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کرانا چاہیے۔ ان اصولوں سے کوئی بھی انحراف باطل ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔ اور ایس ہوا ہے ۔ سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس اپیل کا حق ہے ۔
اسلام آباد (وقارعباسی /وقائع نگار)الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا ہے جمعہ کے روز چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف 11درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے انٹراپارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا۔الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریر کردہ فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کروانے میں ناکام رہی ہیالیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو درخواست گزاروں نے چیلنج کیا تھا، الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے بھی انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراضات اٹھائے تھے۔فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے مبینہ نئے چیئرمین نے انٹراپارٹی الیکشن سے متعلق دستاویز جمع کروائیں، پی ٹی آئی پر عام اعتراضات یہ تھے کہ پارٹی آئین کے تحت انتخابات نہیں بلکہ خفیہ طور پر کرائے گئے، کسی بھی ممبر کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی، پی ٹی آئی کے دفتر میں کاغذات نامزدگی نہ تھے اور یہ سب انتخابی نشان (بلا) کے لیے کیا گیا ہے۔جس کی بنیاد پرالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لیتے ہوئے کہا قرار دیا ہے کہ پی ٹی آئی کو بحثیت سیاسی پارٹی بلے کا انتخابی نشان نہیں ملے گا۔فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک انصاف نے 23 نومبر 2023 کو دیے گئے فیصلے میں کی گئی ہدایات پر عمل نہیں کیا اوہ وہ پی ٹی آئی کے 2019 کے آئین، الیکشن ایکٹ 2017 اور الیکشن رولز 2017 کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشنز کرانے میں ناکام رہے ہیں فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ مبینہ چیئرمین کی جانب سے 4 دسمبر کو جمع کروائے گئے سرٹیفکیٹ اور فارم 65 کو مسترد کیا جاتا ہے۔کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشنز ایکٹ 2017 کی سیکشن 215 کی شقیں لاگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو اس انتخابی نشان کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے جس کے لیے انہوں نے اپلائی کیا تھا۔گزشتہ روز پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پی ٹی آئی کی درخواستوں پر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کو 22 دسمبر کو فیصلے کرنے کا حکم دیا تھا۔ دریں اثناء پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیاہے تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن پر ہمارے پہلے دن سے بہت سارے تحفظات تھے اور الیکشن کمیشن جس باریک بینی سے ہمارے کیس کو دیکھ رہا تھا، 175 سیاسی جماعتوں میں سے کسی اور کے کیس کو اس طریقے سے نہیں دیکھا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے آئین اور قانون کے تحت الیکشن کرائے تھے، ہر چیز کو اسی مناسبت سے پرکھا تھا اور ہم نے الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ کونسے یا سیکشن کی خلاف ورزی ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے جو پشاور ہائی کورٹ میں جواب فائل کیا، اس میں ایک لفظ نہیں بولا کہ کونسے رول یا شق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، پاکستان کے الیکشن ایکٹ 2017 کا کونسے رول یا سیکشن کی خلاف ورزی ہوئی۔بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم نے سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق کیا ہے لیکن یہ فیصلہ ذاتیات پر مبنی ہے، یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے اور الیکشن کمیشن نے یہ بلے کا نشان ہم سے لینے کا پہلے سے تہیا کیا ہوا تھا، یہ ایک سازش ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک بڑی پارٹی سے نشان لے کر سارے کے سارے امیدواروں کو آزاد بنا رہے ہیں، اس وقت 70 مخصوص نشستیں قومی اسمبلی میں ہیں، باقی پورے پاکستان میں ملا کر 227 نشستیں ہیں اور یہ سیٹیں ان جماعتوں کے پاس جاتی ہیں جن کے پاس نشان ہے اور جو اپنے نشان پر الیکشن لڑتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان 227 نشستوں کے امیدواروں کا صدارت اور سینیٹ کے الیکشن میں بہت اہم کردار ہوتا ہے، ان کا وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے انتخاب میں بہت اہم کردار ہوتا ہے، آپ ہمارے 70 ووٹ کسی اور پارٹی کو دے رہے ہیں جو اس کے حقدار ہی نہیں ہیں، صرف سازش یہ ہے کہ ہم سے بلا لے لیں اور ہمارے امیدوار اور ووٹر کنفیوژ ہوں۔پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہم اس کیس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے اور ہمارے پاس پلان بی بھی موجود ہے۔گوہر خان نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کریں گے۔یاد رہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کی درخواستیں پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کرانے تک جماعت کو انتخابی نشان ’بلا‘ استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔درخواست گزار نے دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی الیکشن محض دکھاوا، فریب اور الیکشن کمیشن کو دھوکا دینے کی ناکام کوشش تھی، فراڈ انتخابی عمل نے پی ٹی آئی ارکان کو ووٹ دینے اور انتخاب میں حصہ لینے کے حق سے محروم کردیا۔خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے 23 نومبر کو حکم دیا تھا کہ تحریک انصاف بلے کو اپنے انتخابی نشان کے طور پر برقرار رکھنے کے لیے 20 دن کے اندر اندر پارٹی انتخابات کرائے۔الیکشن کمیشن کے حکم کے بعد پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ عمران خان قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے اور گوہر خان ان کی جگہ چیئرمین کا الیکشن لڑیں گے۔جس کے بعد پی ٹی آئی نے 2 دسمبر کو انٹراپارٹی انتخابات کرائے تھے جہاں بیرسٹر گوہر خان کو عمران خان کی جگہ پی ٹی آئی کا نیا چیئرمین منتخب کیا گیا تھا۔پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی نے انٹراپارٹی انتخاب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ بیرسٹر گوہر علی خان بلامقابلہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور عمرایوب خان مرکزی جنرل سیکریٹری منتخب ہوگئے ہیں۔