ایرانی دارالحکومت تہران میں جمعہ کے روز کتابوں کی ایک بڑی دکان کو اس لیے بند کر دیا گیا ہے کہ یہ دکان خواتین کے حجاب سے متعلق ایرانی قوانین کی پابندی سے انکاری تھی۔ مبینہ طور پر کتابوں کی دکان سکارف کے بغیر بھی خواتین کو اپنے ہاں خریداری کے لیے اجازت دیتی تھی، جس کی ایرانی قوانین میں گنجائش نہیں ہے۔ایران میں خواتین کے لیے 1979 کے انقلاب کے بعد 1983 سے ایک ' ڈریس کوڈ' نافذالعمل ہے۔ اسی 'ڈریس کوڈ' کی خلاف ورزی پر ایران کی اخلاقی پولیس نے ستمبر 2022 میں ایک بائیس سالہ ایرانی لڑی کو مہسا امینی کو حراست میں لیا تھا، بعد ازاں پولیس کی حراست میں ہی موت واقع ہو گئی اور ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔حجاب کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے والی مہسا امینی کی ہلاکت کے بارے میں مغربی حمایت یافتہ این جی اوز سمیت امریکہ و مغربی ممالک نے بھی خوب شور کیا۔ تہران سمیت پورے ایران میں درجنوں سیکورٹی اہلکاروں سمیت سینکڑوں مظاہرین ہلاک ہو گئے۔ یہ ہنگامے کئی ماہ تک جاری ہے۔ایران میں مذہبی ماحول کے خلاف خیالات رکھنے والے اخبار شارق نے اپنی ویب سائٹ پر رپورٹ کیا ہے کہ اب ایک سوا سال گذرنے کے بعد ایرانی اخلاقی پولیس نے جمعہ کی دوپہر اچانک کتابوں کی دکان'شہر کتاب' کو بند کر دیا ہے۔اخبار کے مطابق دکان پر خواتین کی بغیر سکارف موجودگی اور ایرانی وزارت داخلہ کے جاری کردہ قوانین پر دکان کی طرف سے پابندی نہ کرانا ہی بتایا گیا ہے۔ 'بک شاپ' کی طرف سے بھی اس واقعے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔پچھلے سال کے دوران ایرانی حکام نے کئی کاروباری اداروں کو بھی انہی وجوہات کی بنیاد پر بند کر دیا تھا کہ وہ ایرانی قانون کی پروا نہیں کرتے۔ اس سلسلے میں ایران امریکہ اور مغربی ملکوں کے رد عمل کی پروا کیے بغیر اپنے قوانین کی پابندی کرانے کی کوشش میں رہتا ہے۔ دوسری جانب ایرانی مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤنز کرنے پر کئی ایرانی شخصیات اور اداروں کو امریکی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔