سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
پاکستان جغرافیائی لحاظ سے اہم ملک ہے ،پاکستان کے ایک طرف ایران ہے ایک جانب افغانستان ہے ،تیسری طرف ہندوستان ہے ،اور پھر جنوب میں بحیرہ عرب بھی ہے۔ہمیں اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ خوشدلی کے ساتھ رہنا ہے اور سب کے ساتھ بہتر تعلقات قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ہمسائے کے ساتھ طویل عرصے سے افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات اس طرح کے نہیں رہے ہیں جس طرح کے ہونے چاہیے طویل عرصے سے دو طرفہ تعلقات میں اونچ نیچ کا سلسلہ جاری ہے،اور افغانستان میں روس کے آنے کے بعد سے تو پاکستان کا تعلق افغانستان کے ساتھ بہت زیادہ بڑھ گیا تھا ،اور کردار میں ظاہر ہے اضافہ رہا ہو گا اور کسی حد تک اندرونی معاملات میں بھی عمل دخل ہو گا ، لیکن اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں مزید ابتری آئی۔اس صورتحال میں تبدیلی لا نے اور اس صورتحال کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔اس دور سے موجودہ دور تک اور پھر اس کے بعد بھی پاکستان میں جو بھی حکومتیں رہی ہیں اس بات سے قطہ نظر پاکستان کے عوام نے ہمیشہ ہی نہایت ہی کھلے دل کے ساتھ افغانیوں کی کی میزبانی کی ان کو خوش آمدید کہا اور لاکھوں کی تعداد میں موجود افغانی شہری مہاجر کیمپوں کی بجائے گلی محلوں میں پاکستانیوں کے ساتھ رہے اور ایک طویل عرصے تک پاکستان افغانیوں کا دوسرا گھر بنا رہا اور ظاہر ہے کہ جب اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین آتے ہیں تو اس میں طرح طرح کے لوگ شامل ہو تے ہیں ،اور ان میں ظاہر جہاں پر بہت سے اچھے لو گ آئے وہیں پر بہت سے برے لوگ بھی آئے ہو ں گے ان میں کچھ فسادی لوگ بھی ہوں گے لیکن بہر حال 40سال تک ان ملک میں رکھا گیا ،اور اب صورتحال یہ ہے کہ یہ افغانی شہری پاکستان کی معیشت میں اہم فیکٹر بن چکے ہیں۔اور مختلف شعبوں میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں ،چاہے ہم تعمیراتی شعبے کی بات کریں چاہے ہم مائننگ کے شعبے کی بات کریں ان شعبوں میں افغان شہریوں کی کلیدی خدمات ہیں جو ان میں تخریب کا ر عناصر تھے وہ تو ان کے ساتھ رہے ہی نہیں تھے اور نہ ہی وہ یہاں آئے۔بہر حال اس دور میں تو پاکستان کی پوری آبادی بھی ان پر مہربان تھی اور پتہ نہیں کہ پاکستان کی شہریت کا قانون اتنا مشکل اور پیچیدہ کیوں بنایا گیا ہے اور پاکستان کی شہریت حاصل کرنے کا عمل اتنا دشوار اور مشکل کیوں ہے ؟اور یہ ایک بیو رو کریٹک عمل ہے جو کہ بیو رو کریٹک طریقے سے رائج کیا گیا ہے مجھے یاد نہیں پڑتا ہے کہ شہریت کا یہ قانون کبھی بھی پارلیمنٹ کے سامنے لایا گیا ہو اور کبھی پارلیمان سے اس کی منظوری لی گئی ہو۔پاکستان کی شہریت حاصل کرنا ایک مشکل ترین کام ہے اور جن لوگوں نے یہاں پر شادیاں کیں اور جو لوگ یہاں پر پیدا ہو ئے ہیں جنہوں نے یہاں پر کرکٹ کھیلنا سیکھی ان لوگوں کو تو یہاں پر رہنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔پاکستانی حکام کو اس حوالے سے سوچ اور بچار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس پالیسی کے ہمیں فوائد زیادہ ہوں گے یا نقصانات زیادہ ہو ں گے ؟بہر حال چوری کرنا تو پاکستانی قوم کے خمیر میں ہے اور یہاں پر چوری کا مطلب خیانت ہے اور ہمیں اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے ،میں یہاں پر بلوچستان کی بات کروں گا کہ بلوچستان کی حد تک تو کام ٹھپ ہو گیا ہے اور جیسے سردیوں میں پت جھڑ کا سما ہو تا ہے اسی طرح کی صورتحال اس وقت بلوچستان میں موجود ہے ، اور افغان شہریوں کے انخلا کے بعد کئی ایسی ذمہ داریاں ہیں جو کہ ادا کرنے والا کو ئی بھی نہیں ہے۔اس صورتحال پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ،خاص طور پر مائننگ کے شعبے میں اس حوالے سے بہت اثر پڑے گا اور نقصان بھی ہو گا۔افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنا خود پاکستان کی سلامتی کی ضمانت ہے اور ہمیں اس زوایے سے ہی اس بارے میں سوچنا ہو گا۔ماضی کی سوچ اور پالیسوں سے نکلنا ہو گا اور ہمیں افغانستان کو ایک خود مختار ملک کے طور پر ٹریٹ کرنا ہوگا ،ماضی کی ہماری بعض پالیسیاں جس میں سٹریٹیجک دیپتھ کی پالیسی بھی موجود تھی میرے خیال میں عقل مندی کا تقا ضہ نہیں تھیں اور ہمیں ان سے ہٹنا ہو گا۔افغانستان کے بارے میں علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ افغانستان ایشیا ء کا دل ہے اور یہ حقیقت بھی ہے اور جب دل ہی درست کام نہ کررہا ہو تو پھر اس صورت میں باقی جسم بھی ٹھیک انداز میں کام نہیںکرسکتا ہے۔اگر افغانستان میں سکون نہیں ہے تو پھر ایشیا ء میں بھی سکون نہیں ہو سکتا ہے۔اگر افغانستان ڈسٹرب ہو تا ہے تو پورا ایشیا ء دسٹرب ہو جاتا ہے۔ہمیں افغانستان میں استحکام کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس میں ہما ری بہتری بھی ہے۔ہمیں افغانستان کے ساتھ اپنے معاملات میں سپیشل کنسڈریشن کرنی چاہیے۔ایران کے ساتھ ہمارے بہتر تعلقات ہیں لیکن اس کے باوجود ہم ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل نہیں کر سکے ہیں جو کہ افسوس کی بات ہے ایران سرحد تک گیس پا ئپ لا ئن لا چکا ہے لیکن پاکستان ابھی تک اس حوالے سے کنفیوڑن کا شکار ہے اس منصوبے پر کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہ ہونے کی بڑی وجہ امریکی دبائو ہے لیکن اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں آگے بڑھنا ہو گا اور ہمسایوں کے ساتھ تجارت بڑھا کر ہی ہم ترقی کی منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ہمیں بات سمجھنے کی ضرورت ہے اور اپنے خطے کے ممالک سے سیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔جب تک ان دو ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات نہیں رکھتے ہیں تو اس وقت تک بھارت بھی ہم سے تعلقات کو بہتر نہیں کرے گا اور مسئلہ کشمیر بھی اسی طرح لٹکتا رہے گا۔