اگر تقاضہ اخلاقیات کے حوالے سے کیا جائے تو اس میں وزن ہو گا اور دلیل و منطق اثر پذیر بھی ہو سکتی ہے۔ ایک پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے کسی رکن اسمبلی و پارلیمنٹ کو اس پارٹی کے ساتھ ہی خود کو وابستہ رکھ کر پارٹی ٹکٹ کی لاج رکھنی چاہئے۔ اپنے نظریے کے ساتھ بدعہدی نہیں کرنی چاہئے۔ اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ کی گئی کمٹمنٹ پر کوئی حرف نہیں آنے دینا چاہئے۔ باوفا، باصفا رہنا چاہئے اور اپنے کسی معمولی سے سیاسی یا مالی فائدے کی خاطر اپنی عاقبت خراب نہیں کرنی چاہئے۔
اخلاقیات کے ان تقاضوں کی بنیاد پر تو مسلم لیگ (ن) اور پنجاب اسمبلی کے یونیفکیشن بلاک کے خلاف مسلم لیگ (ق) کا کیس بہت مضبوط ہے جس کی وکالت کر کے اپنے سیاسی حریفوں پر اخلاقی فتح کے جھنڈے گاڑے جا سکتے ہیں مگر اخلاقیات پر شاید اس لئے زور نہیں دیا جاتا کہ ماضی قریب و بعید میں کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں ایسی اخلاقیات سے پرہیز کرتی رہی ہیں۔ ممکن ہے آئندہ کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں بھی اخلاقیات کو دردِسر نہ بنانے کا طے ہوا ہو اس لئے اب یونیفکیشن بلاک کے خلاف سارا زور اس کی قانونی اور آئینی پوزیشن پر لگایا جا رہا ہے۔
گذشتہ شب ”وقت نیوز“ کے ایک لائیو پروگرام میں مسلم لیگ (ق) کے لیڈر کامل علی آغا بڑے اعتماد کے ساتھ آئین کی دفعہ 63 اے کا حوالہ دے کر پنجاب اسمبلی کے یونیفکیشن بلاک کے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑا ہونے کی صورت میں اس کی نااہلیت ثابت کر رہے تھے اور پیپلز پارٹی کی محترمہ عظمٰی بخاری بھی اس معاملہ میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتی نظر آئیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئین کی دفعہ 63۔ اے یونیفکیشن بلاک کی اہلیت کو گزند تک نہیں پہنچاتی۔ کسی رکن اسمبلی و پارلیمنٹ کی نااہلیت سے متعلق آئین کی دفعہ 63۔ اے کا یہ تقاضہ ہے کہ کوئی رکن منتخب کسی ایک پارٹی کے ٹکٹ پر ہو مگر اسمبلی کے فورم پر وہ اس پارلیمانی پارٹی کو چھوڑ کر کسی دوسری جماعت کی پارلیمانی پارٹی میں جا بیٹھے تو وہ فلور کراسنگ کی بنیاد پر اپنی اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہو جائے گا اور اسے محروم ہو بھی جانا چاہئے۔ مگر یہ آئینی شق کسی ایک رکن اسمبلی کے انفرادی فعل پر لاگو ہوتی ہے۔ پوری پارلیمانی پارٹی پر ہرگز اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ چنانچہ مسلم لیگ (ق) اس آئینی شق کا سہارا لے کر اپنی رکن قومی اسمبلی کشمالہ طارق اور رکن صوبائی اسمبلی صبا صادق کو تو نااہل کروا سکتی ہے مگر ایک پوری پارلیمانی پارٹی کی شکل میں موجود یونیفکیشن بلاک پر نااہلیت کی تلوار نہیں چلا سکتی۔ بے شک یونیفکیشن بلاک کے ارکان نے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئے اور اگر وہ ایک ایک کرکے فلور کراس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ آ بیٹھتے تو اپنی اسمبلی کی نشست سے محروم ہو جاتے مگر انہوں نے تو مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی کو بھی اپنی واضح اکثریت کے ساتھ مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت مسلم لیگ (ق) سے الگ کر لیا اور اس کا جواز یہ بنایا کہ مسلم لیگ (ق) نے انتخاب تو اپنے پیپلز پارٹی مخالف منشور کے تحت لڑا تھا مگر منتخب ایوانوں میں پہنچ کر وہ پیپلز پارٹی کی شریک کار بن گئی جو اپنے ووٹروں اور ضمیر کے ساتھ بے عہدی ہے۔ چونکہ مسلم لیگ (ق) پارلیمانی پارٹی کی غالب اکثریت یونیفکیشن بلاک کے نام سے اسمبلی کے فورم پر خود کو رجسٹرڈ کرا چکی ہے اس لئے آئینی اور قانونی طور پر یہ پارلیمانی پارٹی اپنے منشور کے تقاضے نبھاتے ہوئے اسمبلی کے فورم پر پیپلز پارٹی مخالف حکمت عملی طے کرے گی تو اس کا یہ اقدام قانونی لحاظ سے فلور کراسنگ کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ چنانچہ اس معاملہ میں مسلم لیگ (ق) کا کیس انتہائی کمزور ہے۔ اور وہ آئین کی دفعہ 63۔ اے کی بنیاد پر یونیفکیشن بلاک کے خلاف فلور کراسنگ کا کیس مجاز عدالت میں لے کر جائے گی تو میری ناقص رائے کے مطابق ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ تاہم 18ویں آئینی ترمیم کے تحت پارٹی سربراہ کو اختلاف رائے کی بنیاد پر اپنے کسی رکن اسمبلی کو نااہل قرار دلانے کا اختیار حاصل ہونے سے پورا یونیفکیشن بلاک اپنے پارٹی ہیڈ کے اشارہ ابرو کے تابع ہو چکا ہے۔ وہ اپنے پارٹی ہیڈ کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پر اعتماد کیلئے یا کسی مالیاتی بل میں مسلم لیگ (ن) کے حق میں ووٹ دیں گے تو پارٹی ہیڈ کے اشارہ ابرو سے بیٹھے بٹھائے اپنی اسمبلی کی رکنیت سے فارغ ہو جائیں گے۔ مگر 18ویں آئینی ترمیم کی یہ شق ابھی میٹھے پھل کی لذت سے محروم ہے کیونکہ اول تو اس آئینی تقاضے کا اطلاق موجودہ اسمبلی کے بجائے آنے والی اسمبلی پر ہونا ہے اور دوسری قباحت یہ آن پڑی ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کی جن دفعات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ ان میں پارٹی ہیڈ کے بلا شرکتِ غیرے ٹوکہ چلاﺅ اختیار سے متعلق شق بھی شامل ہے۔ یہ کیس جس کے ابھی صرف ججوں کے تقرر کے طریق کار سے متعلق معاملہ کا فیصلہ ہوا ہے، سپریم کورٹ میں زیر التواءہے اور کیا خبر سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ میں پارٹی ہیڈ کا یہ اختیار برقرار بھی رہ پاتا ہے یا نہیں۔ اس لئے سپریم کورٹ کے فیصلہ تک 18ویں آئینی ترمیم کی متعلقہ دفعہ روبہ عمل ہو سکتی ہے نہ اختلاف رائے کا اظہار کرنے والے اپنی پارٹی کے کسی رکن یا ارکان کے گروپ پر پارٹی ہیڈ اپنے اختیار کا ٹوکہ چلا سکتا ہے۔ اس لئے 25 فروری کو مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی اپنی حکومت کی پیپلز پارٹی سے خلاصی کرا لیتی ہے تو اپنی اکثریت برقرار رکھنے کے لئے وزیراعلیٰ شہباز شریف یونیفکیشن بلاک کے ووٹ حاصل کرنے کے قانونی اور آئینی طور پر مجاز ہوں گے۔ نہ ان کی حکومت پر کسی خطرے کی تلوار لٹکے گی نہ یونیفکیشن بلاک کے کسی رکن کی اہلیت نااہلیت بنے گی البتہ کل کو اگر سپریم کورٹ 18ویں آئینی ترمیم کے کیس کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے پارٹی ہیڈ کے ٹوکہ چلاﺅ اختیار کو برقرار رکھتی ہے تو پھر یونیفکیشن بلاک کے تعاون سے قائم پنجاب حکومت بھی گرے گی اور یونیفکیشن بلاک کے ارکان بھی اپنی رکنیت سے محروم ہو جائیں گے مگر اس ناخوشگوار صورت حال کی نوبت بھی تب آئے گی جب سپریم کورٹ اپنے فیصلہ میں واضح طور پر قرار دے دے کہ 18ویں آئینی ترمیم کی متعلقہ شق فوری طور پر نافذ العمل ہو گی بصورت دیگر سپریم کورٹ سے جائز قرار پانے کے باوجود اس شق کا اطلاق آنے والی اسمبلی پر ہو گا۔
چونکہ اس وقت فلور کراسنگ کا قانون صرف آئین کی دفعہ 63۔ اے کے تحت لاگو ہے جس کا کسی پوری پارلیمانی پارٹی پر اطلاق نہیں ہو سکتا اس لئے بادی النظر میں یونیفکیشن بلاک آئین و قانون کے محفوظ ہاتھوں میں ہے اور ٹکٹ دینے والی پارٹی کے سربراہ سے اختلاف کرتے ہوئے اسمبلی کے فورم پر کوئی بھی فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ اس قانونی اور آئینی پوزیشن کو چاہے میاں شہباز شریف کی پنجاب حکومت کے لئے ایک اور عدالتی حکم امتناعی سمجھا جائے، پیپلز پارٹی کو پنجاب حکومت سے علیحدگی کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کے برقرار رہنے والا صدمہ برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ اس لئے بہتر ہے‘ یونیفکیشن بلاک کی قانونی اور آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کے بجائے اخلاقیات کے تقاضوں پر زور دیں اگر یہ تقاضے مستحکم ہو جائیں تو مفاد پرستی کی سیاست میں کسی یونیفکیشن بلاک کے قیام کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ بہرحال ہم تو نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔
اخلاقیات کے ان تقاضوں کی بنیاد پر تو مسلم لیگ (ن) اور پنجاب اسمبلی کے یونیفکیشن بلاک کے خلاف مسلم لیگ (ق) کا کیس بہت مضبوط ہے جس کی وکالت کر کے اپنے سیاسی حریفوں پر اخلاقی فتح کے جھنڈے گاڑے جا سکتے ہیں مگر اخلاقیات پر شاید اس لئے زور نہیں دیا جاتا کہ ماضی قریب و بعید میں کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں ایسی اخلاقیات سے پرہیز کرتی رہی ہیں۔ ممکن ہے آئندہ کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں بھی اخلاقیات کو دردِسر نہ بنانے کا طے ہوا ہو اس لئے اب یونیفکیشن بلاک کے خلاف سارا زور اس کی قانونی اور آئینی پوزیشن پر لگایا جا رہا ہے۔
گذشتہ شب ”وقت نیوز“ کے ایک لائیو پروگرام میں مسلم لیگ (ق) کے لیڈر کامل علی آغا بڑے اعتماد کے ساتھ آئین کی دفعہ 63 اے کا حوالہ دے کر پنجاب اسمبلی کے یونیفکیشن بلاک کے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑا ہونے کی صورت میں اس کی نااہلیت ثابت کر رہے تھے اور پیپلز پارٹی کی محترمہ عظمٰی بخاری بھی اس معاملہ میں ان کی ہاں میں ہاں ملاتی نظر آئیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئین کی دفعہ 63۔ اے یونیفکیشن بلاک کی اہلیت کو گزند تک نہیں پہنچاتی۔ کسی رکن اسمبلی و پارلیمنٹ کی نااہلیت سے متعلق آئین کی دفعہ 63۔ اے کا یہ تقاضہ ہے کہ کوئی رکن منتخب کسی ایک پارٹی کے ٹکٹ پر ہو مگر اسمبلی کے فورم پر وہ اس پارلیمانی پارٹی کو چھوڑ کر کسی دوسری جماعت کی پارلیمانی پارٹی میں جا بیٹھے تو وہ فلور کراسنگ کی بنیاد پر اپنی اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہو جائے گا اور اسے محروم ہو بھی جانا چاہئے۔ مگر یہ آئینی شق کسی ایک رکن اسمبلی کے انفرادی فعل پر لاگو ہوتی ہے۔ پوری پارلیمانی پارٹی پر ہرگز اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ چنانچہ مسلم لیگ (ق) اس آئینی شق کا سہارا لے کر اپنی رکن قومی اسمبلی کشمالہ طارق اور رکن صوبائی اسمبلی صبا صادق کو تو نااہل کروا سکتی ہے مگر ایک پوری پارلیمانی پارٹی کی شکل میں موجود یونیفکیشن بلاک پر نااہلیت کی تلوار نہیں چلا سکتی۔ بے شک یونیفکیشن بلاک کے ارکان نے مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور کامیاب ہوئے اور اگر وہ ایک ایک کرکے فلور کراس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ آ بیٹھتے تو اپنی اسمبلی کی نشست سے محروم ہو جاتے مگر انہوں نے تو مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی کو بھی اپنی واضح اکثریت کے ساتھ مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت مسلم لیگ (ق) سے الگ کر لیا اور اس کا جواز یہ بنایا کہ مسلم لیگ (ق) نے انتخاب تو اپنے پیپلز پارٹی مخالف منشور کے تحت لڑا تھا مگر منتخب ایوانوں میں پہنچ کر وہ پیپلز پارٹی کی شریک کار بن گئی جو اپنے ووٹروں اور ضمیر کے ساتھ بے عہدی ہے۔ چونکہ مسلم لیگ (ق) پارلیمانی پارٹی کی غالب اکثریت یونیفکیشن بلاک کے نام سے اسمبلی کے فورم پر خود کو رجسٹرڈ کرا چکی ہے اس لئے آئینی اور قانونی طور پر یہ پارلیمانی پارٹی اپنے منشور کے تقاضے نبھاتے ہوئے اسمبلی کے فورم پر پیپلز پارٹی مخالف حکمت عملی طے کرے گی تو اس کا یہ اقدام قانونی لحاظ سے فلور کراسنگ کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ چنانچہ اس معاملہ میں مسلم لیگ (ق) کا کیس انتہائی کمزور ہے۔ اور وہ آئین کی دفعہ 63۔ اے کی بنیاد پر یونیفکیشن بلاک کے خلاف فلور کراسنگ کا کیس مجاز عدالت میں لے کر جائے گی تو میری ناقص رائے کے مطابق ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ تاہم 18ویں آئینی ترمیم کے تحت پارٹی سربراہ کو اختلاف رائے کی بنیاد پر اپنے کسی رکن اسمبلی کو نااہل قرار دلانے کا اختیار حاصل ہونے سے پورا یونیفکیشن بلاک اپنے پارٹی ہیڈ کے اشارہ ابرو کے تابع ہو چکا ہے۔ وہ اپنے پارٹی ہیڈ کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پر اعتماد کیلئے یا کسی مالیاتی بل میں مسلم لیگ (ن) کے حق میں ووٹ دیں گے تو پارٹی ہیڈ کے اشارہ ابرو سے بیٹھے بٹھائے اپنی اسمبلی کی رکنیت سے فارغ ہو جائیں گے۔ مگر 18ویں آئینی ترمیم کی یہ شق ابھی میٹھے پھل کی لذت سے محروم ہے کیونکہ اول تو اس آئینی تقاضے کا اطلاق موجودہ اسمبلی کے بجائے آنے والی اسمبلی پر ہونا ہے اور دوسری قباحت یہ آن پڑی ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کی جن دفعات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ ان میں پارٹی ہیڈ کے بلا شرکتِ غیرے ٹوکہ چلاﺅ اختیار سے متعلق شق بھی شامل ہے۔ یہ کیس جس کے ابھی صرف ججوں کے تقرر کے طریق کار سے متعلق معاملہ کا فیصلہ ہوا ہے، سپریم کورٹ میں زیر التواءہے اور کیا خبر سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ میں پارٹی ہیڈ کا یہ اختیار برقرار بھی رہ پاتا ہے یا نہیں۔ اس لئے سپریم کورٹ کے فیصلہ تک 18ویں آئینی ترمیم کی متعلقہ دفعہ روبہ عمل ہو سکتی ہے نہ اختلاف رائے کا اظہار کرنے والے اپنی پارٹی کے کسی رکن یا ارکان کے گروپ پر پارٹی ہیڈ اپنے اختیار کا ٹوکہ چلا سکتا ہے۔ اس لئے 25 فروری کو مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی اپنی حکومت کی پیپلز پارٹی سے خلاصی کرا لیتی ہے تو اپنی اکثریت برقرار رکھنے کے لئے وزیراعلیٰ شہباز شریف یونیفکیشن بلاک کے ووٹ حاصل کرنے کے قانونی اور آئینی طور پر مجاز ہوں گے۔ نہ ان کی حکومت پر کسی خطرے کی تلوار لٹکے گی نہ یونیفکیشن بلاک کے کسی رکن کی اہلیت نااہلیت بنے گی البتہ کل کو اگر سپریم کورٹ 18ویں آئینی ترمیم کے کیس کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے پارٹی ہیڈ کے ٹوکہ چلاﺅ اختیار کو برقرار رکھتی ہے تو پھر یونیفکیشن بلاک کے تعاون سے قائم پنجاب حکومت بھی گرے گی اور یونیفکیشن بلاک کے ارکان بھی اپنی رکنیت سے محروم ہو جائیں گے مگر اس ناخوشگوار صورت حال کی نوبت بھی تب آئے گی جب سپریم کورٹ اپنے فیصلہ میں واضح طور پر قرار دے دے کہ 18ویں آئینی ترمیم کی متعلقہ شق فوری طور پر نافذ العمل ہو گی بصورت دیگر سپریم کورٹ سے جائز قرار پانے کے باوجود اس شق کا اطلاق آنے والی اسمبلی پر ہو گا۔
چونکہ اس وقت فلور کراسنگ کا قانون صرف آئین کی دفعہ 63۔ اے کے تحت لاگو ہے جس کا کسی پوری پارلیمانی پارٹی پر اطلاق نہیں ہو سکتا اس لئے بادی النظر میں یونیفکیشن بلاک آئین و قانون کے محفوظ ہاتھوں میں ہے اور ٹکٹ دینے والی پارٹی کے سربراہ سے اختلاف کرتے ہوئے اسمبلی کے فورم پر کوئی بھی فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ اس قانونی اور آئینی پوزیشن کو چاہے میاں شہباز شریف کی پنجاب حکومت کے لئے ایک اور عدالتی حکم امتناعی سمجھا جائے، پیپلز پارٹی کو پنجاب حکومت سے علیحدگی کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کے برقرار رہنے والا صدمہ برداشت کرنا ہی پڑے گا۔ اس لئے بہتر ہے‘ یونیفکیشن بلاک کی قانونی اور آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے کے بجائے اخلاقیات کے تقاضوں پر زور دیں اگر یہ تقاضے مستحکم ہو جائیں تو مفاد پرستی کی سیاست میں کسی یونیفکیشن بلاک کے قیام کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ بہرحال ہم تو نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔