پاکستان کو معرض وجود میں آئے ابھی پانچ سال کا عرصہ نہیں گزرا تھا کہ جولائی 1952ءمیں مجھے روزنامہ ”احسان“ سے وابستہ رہتے ہوئے پشاور کے روزنامہ ”شہباز“ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے پشاور آنا پڑا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد Cold War یہ زمانہ بڑا نازک تھا۔ تاہم پاکستان کے خلاف داخلی اور بین الاقوامی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا طوفان امڈ رہا تھا جس کی داستان بڑی طویل اور تہ در تہ ہے۔ حکمران طبقہ حقائق جاننے کے باوجود مسائل کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ وہ بے ضمیر تھا یا بے غیرت؟ کیا کہا جائے؟ کوئی بات نہ سنی گئی۔ مایوسی کے عالم میں مجھے اکتوبر 1961ءمیں خود اختیار کردہ جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا اور میں لندن جا پہنچا۔ اس زمانے میں جناب مجید نظامی ”نوائے وقت“ کے بیوروچیف کی صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ قانون اور انٹرنیشنل افیئرز کی تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے۔ کبھی کبھی ملاقات ہو جاتی تھی کہ اچانک 22 فروری کو تحریک پاکستان کے نامور دانشور رہنما ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی مرحوم نے مجھے رات کے وقت بتایا کہ جناب حمید نظامی کی حالت بہت نازک ہے۔ مجید نظامی صاحب کو ہنگامی طور پر لاہور بلوایا گیا ہے۔ چنانچہ ان کے لاہور پہنچنے کے چند گھنٹوں کے بعد حمید نظامی مرحوم جنہیں میں پاکستان میں راہ جمہوریت کا پہلا شہید کہا کرتا ہوں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے (انا للہ وانا الیہ راجعون)
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
حمید نظامی مرحوم کی وفات کے دوسرے یا تیسرے دن بعد مجھے ان کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا غالباً آخری خط ملا جس میں انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا ”افسوس! آپ جیسے محب وطن کو بھی پاکستان چھوڑنا پڑا“
ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے چند فقرے میرے لئے بہت بڑا سرمایہ تھے بلکہ میں انہیں آج بھی سرمایہ حیات قرار دیتا ہوں۔
میں اپنی استعداد کے مطابق آپ کو مکتوب لندن اور برطانوی اخبارات کے تراشے نوائے وقت بھجواتا رہوں گا۔ مجید نظامی صاحب نے میرے اس طرز عمل کو دیکھ کر مجھے لکھا کہ ”اگر آپ لندن میں قیام کر سکتے ہیں تو نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں“ میں چونکہ لندن میں ہی تھا میں نے اس موقع کو غنیمت جان کر یہ پیشکش قبول کر لی۔ مجید نظامی صاحب جب لندن میں تھے تو ان کے بھائی اپنے ایک رفیق کار کے ہمراہ خود اداریہ نویسی اور ان کے دوست کاروباری امور سے عہدہ برا ہوا کرتے تھے لیکن اس دوران میں ان کے دوست علیحدہ ہو گئے۔ جب مجید نظامی صاحب لاہور پہنچے تو انہیں ادارئیے اور کاروباری معاملات کو بھی سنبھالنا پڑا۔ بلاشبہ یہ کام بہت مشکل تھا لیکن مجید نظامی صاحب نے نہایت ہمت اور حوصلے سے یہ فرائض انجام دئیے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ نوائے وقت کی نشاة ثانیہ کے بانی ہیں تو غلط نہیں ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے لندن سے لاہور بلا کر چیف رپورٹر کی ذمہ داریاں بھی تفویض کر دیں۔ میرے آنے کے چند روز بعد پاک بھارت جنگ کا آغاز ہو گیا۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ جنہوں نے میدان جنگ نہیں دیکھا وہ اندازہ نہیں کر سکتے کہ جنگ کیا ہوتی ہے۔ میں اپنی لندن سے نئی نئی درآمد کردہ کار کے ذریعے واہگہ بارڈر کی طرف روانہ ہو گیا۔ دراصل 6 ستمبر 1965ءکو جب پاکستان اور بھارت کے درمیان باضابطہ جنگ کا اعلان ہوا تو میں مجید نظامی صاحب کے دفتر میں موجود تھا، میرے ساتھ خالد کشمیری بھی بطور سٹاف رپورٹر موجود تھے ہم نے فیصلہ کیا کہ واہگہ کی طرف جانا چاہئے اس کے بعد خالد کشمیری کو ساتھ لے کر واہگہ کے محاذ جنگ کی طرف روانہ ہو گئے جب ہم شالیمار باغ سے آگے بڑھ رہے تھے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان بمباری کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ مناواں تھانہ کے ایس ایچ او نے ہمیں بتایا کہ آگے جانا بے حد خطرناک ہے۔ آپ یہیں ہمارے پاس رک جائیں، میں واپس آیا اور مجید نظامی صاحب کو سنگین صورتحال سے آگاہ کیا۔ ان پر بھی صورتحال واضح ہو چکی تھی کہنے لگے کہ اب محاذ جنگ کی طرف جانے کی ضرورت نہیں جو خبریں اور عوامی تاثرات حاصل کئے جا سکتے ہیں یہیں بیٹھ کر حاصل کریں۔ اس موقع پر میں نے یہ محسوس کیا کہ مجید نظامی صاحب ایسے ہنگامی حالات میں بھی اپنے حواس کو کنٹرول کرنے میں کتنی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بعدازاں بطور مدیر نوائے وقت ان کے فیلڈ مارشل ایوب خان اور دوسرے حکمرانوں کے ساتھ کئی معرکے بھی دیکھے۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں ہو رہا کہ حمید نظامی کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بھائی مجید نظامی صاحب جنہیں میں مرشد صحافت کہا کرتا ہوں نے مرحوم کے مشن کو آگے بڑھایا اور بڑھاتے چلے جا رہے ہیں جو ان کے بڑے بھائی مرحوم حمید نظامی نے 23مارچ 1940ءکو متعین و مقرر کر دیا۔
بلاشبہ حمید نظامی مرحوم جدید صحافت کے بانیوں میں شمار کئے جائیں گے۔ لیکن مجید نظامی کو ایک لحاظ سے ان پر ایک برتری یہ حاصل ہوئی کہ حمید نظامی مرحوم صرف ادارتی حد تک اپنے فرائض مثالی انداز میں ادا کیا کرتے تھے لیکن جب مجید نظامی صاحب کو اپنے بھائی کی اچانک جان لیوا علالت کے پیش نظر افراتفری میں لاہور آ کر نوائے وقت کی ذمہ داریاں سنبھالنی پڑیں تو اس وقت نوائے وقت کے مالی حالات بے حد ابتر ہو چکے تھے۔ ان کے دوسرے ساتھی جو نوائے وقت کے مالی امور کو سنبھالے رہتے تھے ان سے علیحدہ ہو چکے تھے، چنانچہ اس پریشان کن صورتحال کو سنبھالنے کے لئے انہوں نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔ راقم الحروف ان دنوں جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں لندن میں تھا اس لئے میں نے محسوس کیا کہ اس موقع پر مجھے ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے جو خلا پیدا ہو چکا ہے اپنی استعداد کی حد تک دور کرنے کے لئے اپنا تعاون فراہم کرنا چاہئے۔ چنانچہ میں نے اپنے طور پر فیصلہ کیا کہ نہ صرف مکتوب لندن کا سلسلہ جاری رکھوں بلکہ برطانوی اخبارات سے بعض مضامین جیسا کہ مجید نظامی ان کے تراشے نوائے وقت کو بھجوایا کرتے تھے بھیجنا شروع کر دئیے اور مجید نظامی صاحب کو مطلع کیا کہ میں آئندہ دو تین ماہ کے اندر اندر لاہور آنے والا ہوں۔ اس دوران میں آپ کوئی خلا محسوس نہیں کریں گے۔ جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو ہم اس وقت وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ دوسرے صحافیوں کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے میاں صاحب تذبذب کے عالم میں تھے کہ پاکستان ایٹمی دھماکہ کرے یا نہ کرے مجید نظامی صاحب نے پاکستانی عوام کے جذبات کی بے خوف ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ ”میاں صاحب اگر آپ ایٹمی دھماکے نہیں کرتے تو پھر آپ کا دھماکہ ہو جائے گا اور ظاہر ہے کہ کسی وزیراعظم کو ان کے منہ پر ایسی بے باکانہ لب کشائی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بظاہر پاکستان کو اس وقت بھارت سے زیادہ برتری حاصل تھی لیکن جب تک وزیراعظم حکم نہ دیتے اس وقت تک پاکستان ایٹمی دھماکہ نہیں کر سکتا تھا چنانچہ اس موقع پر مجید نظامی صاحب اگر اپنی بے مثال جرات کا مظاہرہ نہ کرتے تو بھارتی ہمارے شہروں پر بھی بمباری کرنے سے نہ چوکتے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ مجید نظامی صاحب کا یہ جرات مندانہ اظہار ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ میاں نواز شریف کو اعلان کرنا پڑا کہ ”پاکستان ایک نہیں بھارت کے دو تین ایٹمی دھماکوں کے برعکس چھ یا سات دھماکے کرے گا“ مجید نظامی صاحب کی حوصلہ مندی کی داد دینی چاہئے کہ انہوں نے وزیراعظم کو بلاتاخیر فیصلہ کرنے پر آمادہ کر لیا۔
کسی بھی ملک کی آزاد صحافت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے اقتصادی پہلوﺅں کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ قیام پاکستان سے پہلے چونکہ بنیادی طور پر برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کی جاتی تھی اور سب سے بڑا مقصد اخبارات کے سامنے یہ ہوتا تھا کہ انگریز کو یہاں سے نکالا جائے اور برصغیر کے مسلمانوں کو کاملاً اپنے عظیم مقاصد کے حصول پر مرتکز کر دیا جائے۔ اس لئے اس یکطرفہ ٹریفک کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اقتصادی قوت کی اہمیت کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف جذباتیت سے کام لیا جائے۔ اس وجہ سے مسلمان اخبارات ہر وقت مالی مشکلات کا شکار رہتے تھے اس کے برعکس اس دور کے لاہور سے شائع ہونے والے ہندو اخبارات بالخصوص ملاپ اور پرتاب کے بعد سکھوں کے اخبار پر بھارت نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔ اس بنیادی خامی کو دور کرنے کے لئے پہلے حمید نظامی مرحوم اور بعدازاں جناب مجید نظامی نے حقیقت پسندانہ راستہ اختیار کیا کہ جب تک اخبار کی اقتصادی صورتحال مضبوط نہیں ہو گی اس وقت تک آزادی صحافت کا تصور عملی صورت میں ممکن نہیں ہو سکے گا۔ جناب مجید نظامی نے نوائے وقت کو ایک مثالی کاروباری ادارے کی صورت دلانے کا آغاز کیا اور مسلسل جدوجہد سے اسے مستحکم کاروباری ادارہ بھی بنا دیا۔ آج جب ہم مسلمان صحافت کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس میں نوائے وقت کی اس روش اور پالیسی کو ایک تاریخی اقدام قرار دئیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک زمانہ ایسا بھی آیا جب میاں ممتاز دولتانہ نے نوائے وقت کو اپنا مدمقابل سمجھ لیا اور کاروباری لحاظ سے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ لیکن مجید نظامی نے ایسے ہر سرکاری اقدام کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب فیلڈ مارشل ایوب خان اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہو کر مری میں اخبارات و جرائد کے مدیروں کو دھمکاتے ہوئے تیر چلا رہے تھے اور ان کی تذلیل سے باز آنے کی صورت دکھائی نہیں دیتی تھی تو مجید نظامی صاحب نے اٹھ کر ایک ایسا جرات مندانہ نعرہ بلند کیا کہ فیلڈ مارشل کے اپنے حواس بھی درست نہ رہ سکے۔ یہ بڑا نازک مرحلہ تھا کسی ڈکٹیٹر کے منہ پر آزادی صحافت کے حوالے سے لگام دی جاتی لیکن یہ کارنامہ بھی مجید نظامی صاحب نے کر دکھایا۔
مجید نظامی صاحب کے جرات کردار کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن ایک دلچسپ واقعہ بھی بیان کرنا ضروری ہے۔ ایک بار انڈین ہائی کمشنر کے فرسٹ سیکرٹری نے ان سے ملاقات کی اور کہا کہ ”وہ انہیں بھارت کا دورہ کرنے کی دعوت دینے کے لئے آئے ہیں۔ جب فرسٹ سیکرٹری اپنا مدعا بیان کر چکے تو مجید نظامی صاحب نے اپنے خاص انداز میں کہا کہ ”میں ضرور بھارت آﺅں گا لیکن اس طرح نہیں میں پاکستان کے ٹینکوں پر چڑھ کر بھارت کی سرزمین پر قدم رکھوں گا“
ظاہر ہے کہ فرسٹ سیکرٹری مجید نظامی کا یہ جواب سن کر بے ہوش نہ سہی دم بخود رہ گیا ہو گا۔ اسے ایسے جواب کی توقع ہی نہیں تھی تاہم ایسا ہی جواب انہوں نے سابق صدر ضیاءالحق کو بھی دیا۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ مجید نظامی صاحب نے قیام پاکستان کے بعد آج تک بھارت کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت نے نہ صرف پاکستان کے خلاف انتہائی شدید دشمنی کا رویہ اختیار کر رکھا ہے بلکہ دنیا کے کسی فورم پر وہ پاکستان کی مخالفت کئے بغیر نہیں رہتا۔ بھارت کی طرف سے یہ دعوت ایک منافقانہ دعوت ہے وہ چاہتا ہے کہ مجھے بھارت کا دورہ کروا کر دنیا پر یہ ثابت کرے کہ بھارت کس قدر لبرل ملک ہے جو بھارت کے سب سے بڑے دشمن ملک کے صحافی کو سرکاری دورے پر بلاتا ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ مجید نظامی صاحب آج تک واہگہ کے اس پار نہیں گئے۔
ایک اور اہم بات جس کا ذکر کرنا ضروری دکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ مجید نظامی صاحب نے جہاں آزادی صحافت کے لئے بڑا دوٹوک موقف اختیار کئے رکھا وہیں انہوں نے نوائے وقت کے اقتصادی و مالیاتی پہلو کی بقا Survival کو کبھی ایک لمحے کے لئے بھی فراموش نہیں کیا۔
”نوائے وقت“ کی نشاة ثانیہ اور اس کے بے باک صحافتی کردار و امیج کو برقرار رکھنے کی جدوجہد اب بھی جاری ہے۔ اپنے برادر اکبر حمید نظامی مرحوم کی وفات کے بعد مجید نظامی کو ”نوائے وقت“ کی ادارت اور انتظامات سنبھالنے کو نصف صدی کا عرصہ ہو چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی مجید نظامی زمانے کے گرم و سرد اور نیرنگی حالات سے بے پرواہ ہو کر اپنے بھائی حمید نظامی کے مشن کا پرچم سربلند کئے روز اول کی طرح ایمانداری، دیانتداری اور اصولی صحافت کے فروغ اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی روش پر کاربند ہو کر چومکھی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے مشن کی تکمیل میں کامیابی دے اور ان کی عمر میں برکت ڈالے۔ (آمین)