کون بنے گا نگران وزیراعظم؟


نگران وزیراعظم کے بارے میں سیاسی جماعتوں کے درمیان مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ میڈیا میں مختلف نام گردش کررہے ہیں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) اصولی طور پر متفق ہیں کہ نگران وزیراعظم جمہوریت پر یقین کامل رکھنے والا ہو اور کسی ادارے کے دباﺅ میں آکر انتخابات ملتوی نہ کردے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے عاصمہ جہانگیر کا نام قابل قبول تھا مگر یہ نام چونکہ وقت سے پہلے افشاءہوگیا اور اسے متنازعہ بھی بنادیا گیا لہذا عاصمہ جہانگیر وزیراعظم کی ریس سے تقریباً باہر ہوچکی ہیں۔ متوقع نگران وزیراعظم کی پیشین گوئی سے پہلے ضروری ہے کہ اس کی نامزدگی کے لیے آئینی طریقہ کار واضح کردیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق صدر پاکستان وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی رضا مندی سے نگران وزیراعظم کا اعلان کریں گے۔ اگر دونوں کے درمیان اتفاق رائے نہ ہو تو آرٹیکل 244/A کے مطابق وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد تین دن کے اندر دو دو نام 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کریں گے جس میں حکومت اور اپوزیشن کی مساوی نمائندگی ہوگی۔ پارلیمانی کمیٹی تین روز کے اندر نگران وزیراعظم کا فیصلہ کریگی۔ اگر کمیٹی فیصلہ نہ کرپائی تو چار نام الیکشن کمیشن کو روانہ کردئیے جائینگے جو دو روز کے اندر نگران وزیراعظم کے نام کا اعلان کرنے کا پابند ہوگا۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) نگران وزیراعظم کے نام پر متفق ہوچکی ہیں اسمبلیوں کی تحلیل کے ساتھ ہی نگران وزیراعظم کا اعلان بھی کردیا جائیگا۔
پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے صدر محمود خان اچکزئی نگران وزیراعظم کی ریس میں سب سے آگے ہیں۔ تجربہ کار منجھے ہوئے سیاستدان ہیں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ انکے تعلقات خوشگوار اور دوستانہ ہیں انہوں نے آغاز میں تدبر اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نگران وزیراعظم کی پیش کش قبول کرنے سے انکار کردیا۔ سینئر پارلیمنٹیرین ان سے التماس کرتے رہے کہ وہ پاکستان کی خاطر منصب قبول کرنے پر رضا مند ہوجائیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف محمود خان اچکزئی کو آشیرباد دے چکے ہیں۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے فلسطین کے صدر محمود عباس کے اعزاز میں ایوان صدر میں لنچ کی تقریب کا اہتمام کیا جس میں محمود خان اچکزئی شریک تھے۔ پی پی پی کے علاوہ وہ واحد سیاستدان تھے جن کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ دعوت میں شریک ایک پی پی پی لیڈر کے مطابق اچکزئی صاحب کو خصوصی پروٹوکول دیا گیا ان کی نشست مرکزی ٹیبل پر مخصوص کی گئی جس پر صدر پاکستان آصف علی زرداری، صدر فلسطین محمود عباس، وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف اور چیئرمین بلاول بھٹو رونق افروز تھے۔ پی پی پی کے سینئر لیڈر اور وفاقی وزراءاچکزئی صاحب کے اردگرد تھے اور انہیں خوش کرنے میں مصروف تھے۔ اچکزئی صاحب نے ایک دانشمند سیاستدان کے طور پر میڈیا سے نگران وزیراعظم کے مسئلے پر بات کرنے سے گریز کیا البتہ دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ انتخابات بروقت ہونے چاہئیں جو ہر لحاظ سے صاف اور شفاف ہوں۔ ایک اخبار نویس نے صدر پاکستان کے ترجمان فرحت اللہ بابر سے سوال کیا کہ سیاستدانوں میں سے صرف اچکزئی صاحب کو دعوت کیوں دی گئی وہ اس سوال کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق اچکزئی صاحب مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما میاں نواز شریف سے مری میں ملاقات کرچکے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد وہ خاموش سفارتکاری کے ذریعے تمام قابل ذکر سیاستدانوں سے رابطے کررہے ہیں تاکہ اتفاق رائے پیدا کرسکیں۔ اچکزئی صاحب کا تعلق بلوچستان سے ہے اگر وہ نگران وزیراعظم بن گئے تو قوم پرست بلوچ سیاسی جماعتوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ ایک نئی اُمید کے ساتھ نئے انتخابات میں حصہ لینے پر مائل ہونگے۔ ان قوم پرست جماعتوں نے 2008ءکے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا جس کی ذمے داری آمر جنرل پرویز مشرف پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ آمر نے انتخابات میں قوم پرست جماعتوں کو مساوی مواقع فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اگر نئے انتخابات خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے بغیر کرائے جاسکیں اور قوم پرست جماعتیں آزادی سے اس میں حصہ لیں تو بلوچستان میں آگ اور خون کا کھیل ختم کیا جاسکتا ہے۔ محمود خان اچکزئی مستحکم کردار کے باصلاحیت سیاستدان ہیں وہ صاف شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کی ضمانت فراہم کرسکتے ہیں۔ وہ نگران وزیراعظم کے فیورٹ اُمیدوار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی جانب سے جسٹس(ر) ناصر اسلم زاہد کا نام بھی پیش کیا ہے انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ ایسے ہی بااصول افراد کو بڑے مناصب پر فائز ہونا چاہیئے جو آئین پر اُٹھایا ہوا حلف توڑ دے وہ ہمیشہ کے لیے داغدار ہوجاتا ہے اور اپنے دامن پر لگے داغ کو کبھی چھپا نہیں سکتا۔
حکومت پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے پر اسرار طور پر استعفیٰ دے دیا ہے وہ کچھ عرصہ سے دباﺅ بلکہ تناﺅ کا شکار تھے۔ جیالے وزیراعظم ان سے خوش نہیں تھے۔ مستعفی ہونے کے بعد انہوں نے صدر پاکستان سے ملاقات کی اور نئے وزیرخزانہ سلیم مانڈی والہ کی تقریب حلف وفاداری میں بھی شرکت کی مگر میڈیا کا سامنا کرنے سے گریز کیا۔ انکی خاموشی چغلی کھاتی ہے کہ وہ نگران سیٹ اپ میں کسی اہم منصب کے اُمیدوار ہیں۔ انکے قریبی ذرائع کے مطابق انہوں نے صدر پاکستان کی حمایت حاصل کرلی ہے اور اب وہ آزادی کے ساتھ نگران وزیراعظم کے لیے لابی کرینگے۔ ان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے اہم عالمی مالیاتی اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ پاکستان میں ان اداروں کی لابنگ سے معین قریشی نگران وزیراعظم اور شوکت عزیز وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ حفیظ شیخ ورلڈ بنک میں سروس کرتے رہے۔ جنرل مشرف کے دور میں وزیر نجکاری نامزد ہوئے۔ پی پی پی نے ان کو 2010ءمیں سینٹر اور وزیر خزانہ بنایا۔ حفیظ شیخ کے ایک قریبی دوست کے مطابق انہوں نے استعفیٰ سے پہلے عالمی مالیاتی اداروں اور مسلم لیگ (ن) سے نگران وزیراعظم کے منصب کیلئے مشاورت کی اور انہیں اعتماد میں لیا۔ حفیظ شیخ کے اسحاق ڈار سے دوستانہ مراسم ہیں۔ پاکستان اپنی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے آئی ایم ایف سے بیل آﺅٹ پیکج کا مطالبہ کررہا ہے۔ مذاکرات بھی حفیظ شیخ ہی کررہے تھے۔ نگران حکومت کیلئے انتخابات کی مانیٹرنگ کے ساتھ ساتھ بجٹ کی تیاری اہم مسئلہ ہوگا۔ آئی ایم ایف کی مالی اعانت کے بغیر بجٹ کی تیاری اور منظوری ممکن نہیں ہوگی۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کی خواہش ہے کہ نگران حکومت معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے مشکل فیصلے کرے تاکہ انتخابات کے بعد نئی حکومت کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پاکستان کے تشویشناک معاشی منظرنامہ میں ڈاکٹر حفیظ شیخ نگران وزیراعظم کے منصب کیلئے اہم اُمیدوار بن کر سامنے آئے ہیں اگر آئی ایم ایف نے انکے سر پر ہاتھ رکھ دیا تو صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف دونوں ان کو قبول کرلیں گے۔ تازہ صورتحال کے مطابق مقابلہ محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے درمیان ہے اس سلسلے میں سپہ سالار کی رائے بھی اہم ہوگی۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے استعفیٰ سے نیا ریکارڈ قائم ہوگیا ہے۔
 گزشتہ پانچ سال کے دوران 5 وزیر خزانہ 4 گورنر سٹیٹ بنک 5 سیکریٹری خزانہ اور ایف بی آر کے 6 سربراہ تبدیل ہوئے ۔ یہ ہے ”مفاہمت“ پر مبنی مخلوط حکومت کی معاشی کہانی جس پر معاشی ماہرین اپنے تجزیے پیش کرینگے جو اہم مالیاتی فیصلے حفیظ شیخ نے دباﺅ کے باوجود روک رکھے تھے وہ نئے وزیرخزانہ جاری کردینگے۔ وزارت خزانہ اور مالیاتی اداروں میں نئی تعیناتیاں ہوں گی اور انتخابات سے پہلے با اثر افراد کو خوش کیا جائیگا۔

ای پیپر دی نیشن