ہفتہ ‘ 12 ربیع الثانی 1434ھ ‘ 23 فروری2013 ئ

Feb 23, 2013


نارنگ منڈی: سوئی گیس کے زائد بلوں کیخلاف صارفین کا گدھے کے گلے میں بل ڈال کر مظاہرہ۔
گدھا ہر جگہ تخت مشق بنا رہتا ہے۔ چور کا منہ کالا کرکے گدھے پر بٹھایا جاتا ہے۔ کچھ علاقوں میں تو گدھے سے ہل چلا کر کھیتوں میں کام بھی لیا جاتا ہے۔ نارنگ منڈی والوں نے بھی بلوں کا بوجھ اب گدھے کے گلے میں ڈال کر محکمہ سوئی گیس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ مظاہرین اگر گدھے پر کسی وزیر مشیر کی تصویر بھی چسپاں کر لیتے تو کم از کم گدھوں کا احتجاج تو کم ہو جاتا۔ اب ملک بھر میں گدھے احتجاج پر ہیں۔ کچھ تو اپنا موقف بیان کرنے کےلئے پریس کانفرنس کی تیاریوں میں بھی ہیں۔ لہٰذا حکمران گدھوں کی بے عزتی کروانے والی عادتیں چھوڑ دیں اور بلوں میں خواہ مخواہ کا اضافہ مت کیا کریں۔ 500 روپے ماہانہ بل ادا کرنے والے کو جب 10 سے 15 ہزار کا بل ادا کرنا پڑیگا تو وہ گدھے کو ہی حکمران سمجھ کر اس پر غصہ نکالے گا۔ بجلی اور گیس کے بل دیکھ کر انسان ”گرا گدھے سے اور غصہ کمہار پر“ کے مصداق گدھوں کا مذاق اڑانا شروع کر دیتا ہے۔ اصل میں ان گدھوں کے کان کھینچنے چاہئیں جو بغیر دیکھے اتنے بل بھیج دیتے ہیں۔ دیہاتوں میں اگر پولیس کسی مجرم کو پکڑنے میں ناکام ہو جائے تو پھر مجرم کے جانوروں کو تھانے لے جاتی ہے۔ اصل نہیں تو نقل ہی سہی۔ یہاں بھی شہری اگر غلط بل بھیجنے والے اصل گدھوں تک رسائی نہیں پا سکتے۔ تو نقلی گدھوں کے گلے میں بل ڈال کر رانجھا راضی کرلیتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
پیپلز پارٹی نے قائداعظم سے بے وفائی کی (ق) لیگ معافی مانگے، سیاسی رہنما
مسلم لیگ قائداعظم نے چند دن کی لیڈری کی خاطر اتنا پڑا نقصان کرلیا‘ جس کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑیگا۔ گذشتہ روز اسی جماعت نے نہ صرف بانی پاکستان سے بے وفائی کی بلکہ اپنے نام کا بھی خیال نہ رکھا۔ یہ صرف تیر کو خوش کرنے کےلئے سائیکل کے حصے بخئے کر رہی ہے۔ سائیکل کی تاریں تو سرراہ ٹوٹ ہی رہی تھیں۔ اب جنازہ بھی گجراتیوں نے خود ہی نکال دیا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ لوہے اور درختوں کی آپس میں لڑائی ہو گئی تو لوہے نے بڑھک مارتے ہوئے درختوں کو للکارا ہم تجھے کاٹنے کیلئے آ رہے ہیں۔ درختوں نے کہا یہ ناممکن ہے ایسا نہیں ہو سکتا لہٰذا جیت ہماری ہے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد جب کچھ درختوں نے کلہاڑوں میں دستہ بننے کیلئے اپنے آپ کو پیش کر دیا تو درختوں کے سربراہ نے بغیر لڑے ہار تسلیم کر لی اور تاریخی جملہ کہا کہ جب تک میرے خاندان سے بغاوت نہیں ہوئی تھی تب تک مجھے لوہا کبھی کاٹ کر شکست نہیں دے سکتا تھا لیکن جب کچھ درختوں نے دستہ بننے کی حامی بھر لی پھر شکست کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ اکیلی پیپلز پارٹی یا اے این پی بھی قائداعظم کا نام ہٹا کر بھٹو کا نام نہیں رکھ سکتی تھی لیکن جب گھر سے غداری ہو گی، جب مسلم لیگ قائداعظم نے ہی نام ہٹانے کے لئے ووٹ دے دئیے پھر ن لیگ یا متحدہ کیا کر سکتی تھیں....
آپ ہی اپنی اداﺅں پہ ذرا غور کریں
ہم اگرعرض کریں گے تو شکایت ہو گی
چودھری برادران نے تو قائداعظم کے ساتھ میاں اظہر والا کام کیا ہے۔ سچ کہا گیا ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ جوتی چوری کرنا الگ معاملہ ہے لیکن نام چوری کرنا تو جرم ہے اور وہ بھی بانیانِ ملک و ملت کا۔ ایوان اقتدار کے باسیو ذرا کھڑکیوں سے جھانکو....
”کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا“
٭....٭....٭....٭
 مجبور مفلس عوام اٹھ کھڑے ہوئے تو محلات بچیں گے نہ انکے مکین:منور حسن
جماعت اسلامی کب سے انقلاب کے راستے پر چل پڑی ہے آپکی پارٹی میں جمہوریت ہے آپ ایسی ہی جمہوریت کی بات کریں جس کے ثمرات عوام کی دہلیز پرانہیں ملیں۔مجبور و مفلس اگر اٹھ کھڑے ہوں تو پھر محلات کے مکین ہی نہیں بڑے بڑے منظم افراد بھی مولی گاجر کی طرح کٹ جائینگے۔سید زادہ تو ویسے بھی دھیمے انداز سے گاڑی چلا رہا ہے اور یہ انداز تو پُر امن جدوجہد کا ہے اس لئے جھگیوں میں بسنے والوں اور محلات کے باسیوں کے مابین تفریق کچھوے کی رفتار سے چلنے سے ختم نہیں ہوگی۔خرگوش کی طرح کبھی بھاگ بھی لیا کریں یا ڈنڈے کھانے صرف قاضی حسینؒ کی قسمت میں ہی لکھے ہوئے تھے۔کل کا غریب دل و جان سے نعرہ لگاتا تھا۔ظالمو! قاضی آرہا ہے لیکن اب تو سیاست صرف ملاقاتوں میں رہ گئی ہے یا اخباری سطح پر جو لاوا پہلے گرم ہوتا تھا وہ بغیر پھٹے ہی ٹھُس ہوچکا ہے۔پُر امن جدوجہد کریں کیونکہ اس وقت اگر چنگاری بھی گر پڑی تو سارے کھلیان کو جلا کر راکھ بنادے گی۔لہٰذا اس وقت آپ تبدیلی نہیں لا سکتے تو غریبوں کو بابا فریدؒ کی زبان میں دلاسہ ہی دیتے رہیں....
رُکھی سکھی کھا کے ٹھنڈا پانی پی
فریدا دیکھ پرائی جوپڑی نہ ترسائیں جی
٭....٭....٭....٭
 پاکستان اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والے اقدامات سے گریز کرے:بھارتی صدر
ایران سے گیس اور بجلی لینے سے اگر ہمسائیوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کیا کریں ، چین کو گوادر پورٹ دینے سے کوئی جلتا ہے تو لاکھ مرتبہ جلے ۔روس کیساتھ دوستی بڑھانے سے ہمسایہ تو پہلے بھی خوش نہیں تھا۔ اس کی خوشی کشمیر سے دستبرداری اور خطے میں اسکی چو دھراہٹ کو سلام کرنے میں ہے۔لہٰذا ہم بھگوان کو دیوتا ماننے سے تو رہے آپ برطانیہ سے کوہ نور ہیرا واپس لے نہیں سکے اور شیروں سے لڑائی مول لینے کے پلان ترتیب دے رہے ہو۔پاکستان نے اپنی سلامتی اور خوشحالی کیلئے خود فیصلے کرنے ہیں۔ بھارت کا اعتماد چکنا چور ہوتا ہے توہمیں کس چیز کی پروا ہے۔بھارت نے خود تو دیواریں اس قدر اونچی کررکھی ہیں کہ ٹھنڈی ہوا کا تصور کرنا بھی عبث ہے۔بھارتی صدر ذرا اپنے گریبا ن میںجھانکیں لاشوں کے بدلے گلاب پیش نہیں کیے جاسکتے۔اس لئے ان کا اعتماد جائے بھاڑ میں ہمیں تو اپنی سلامتی کو مقدم رکھنا ہے۔

مزیدخبریں