دین مذاق نہیں ۔۔۔!

Feb 23, 2013

مکتوب امریکہ…طیبہ ضیا

واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایف بی آئی اے کے ایک سابق ایجنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ سی آئی اے کے نامزد سربراہ جان برینن اسلام قبول کر چکے ہیں اور انہوں نے 1996 سے 1999 تک سعودی دارالحکومت ریاض میں تعیناتی کے دوران اسلام قبول کیا تھا۔ ایف بی آئی کے ایک سابق ایجنٹ نے حال ہی میں ٹرنٹو ریڈیو کے ایک شو کے دوران جان برینن کے قبول اسلام کا انکشاف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جان برینن ریاض میں جب سی آئی اے کے سٹیشن انچیف تھے تو وہ سعودی حکام کے ساتھ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ گئے تھے اور وہاں غیر مسلموں کو جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ جان بریننن حال ہی میں صدر بارک اوباما کے ہوم لینڈ سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے لئے نائب وزیر تھے۔ وہ ڈیوڈ پیٹریاس کی جگہ لیں گے جبکہ ناقدین کا اعتراض ہے کہ جان برینن اس عہدے کے لئے ان فٹ ہیں۔ جان برینن امریکہ کے انتہائی حساس شعبے کے ساتھ منسلک ہیں اور ان کا قبول اسلام کو مخفی رکھنا ان کی مجبوری تھی۔ امریکہ میں بڑھتے ہوئے اسلامی رحجان کو جس قدر دبایا جاتا ہے اسی قدر اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کوئی انسان کسی کو زبردستی مسلمان نہیں کر سکتا، زبردستی کلمہ نہیں پڑھایا جا سکتا اور اگر ایسا ہو جائے تو اسے قبول اسلام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ عمل ازخود اسلام کے منافی ہے۔ اگر کسی نے بخوشی اسلام قبول کیا، اس کے بعد اس کے پاس واپسی کا راستہ نہیں البتہ حالت مجبوری میں قبول اسلام کو مخفی رکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے اور کفر پر مجبور کیا گیا ہو اور دل اس کا ایمان پر مطمئن ہو۔ مگر جس نے دل کی رضامندی سے کفر کو قبول کر لیا اس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا اور اللہ کا قاعدہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو راہ نجات نہیں دکھاتا جو اس کی نعمت کا کفران کریں۔ (النحل 107) ۔ اس آیت مبارکہ میں ان مسلمانوں کے بارے میں بحث کی گئی ہے جن پر اس وقت سخت مظالم توڑے جا رہے تھے اور ناقابل برداشت اذیتیں دے کر کفر پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ ان کو بتایا گیا کہ اگر کسی وقت تم ظلم سے مجبور ہو کر محض جان بچانے کی خاطر کلمہ کفر زبان سے ادا کر دو اور دل تمہارا عقیدہ کفر سے محفوظ ہو، تو معاف کر دیا جائے گا۔ حالتِ مجبوری میں مُردار کو بھی جائز قرار دے دیا گیا۔ اگر ایمان دل میں رکھتے ہوئے آدمی مجبوراً ایسا کرے تو رخصت ہے ورنہ مقام عزیمت یہی ہے کہ خواہ جان چلی جائے کلمہ حق پر قائم رہے۔ اسلام میں جبر نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”اگر تیرے ربّ کی مشیت یہ ہوتی تو سارے اہل زمین ایمان لے آئے ہوتے، پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟ کوئی متنفّس اللہ کے اِذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا، اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے، وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے“ (یونس 100) ۔ یعنی اگر اللہ کی یہ خواہش ہوتی کہ اس کی زمین میں صرف مومن اور فرمانبردار ہی بسیں اور کفر و نافرمانی کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو تو اس کے لئے یہ مشکل کام نہ تھا کہ وہ تمام اہل زمین کو مومن و مطیع پیدا کرتا اور نہ یہ مشکل تھا کہ سب مخلوق کے دل ایمان کی طرف پھیر دیتا مگر اللہ نے انسان کو عقل و دانائی عطا کی جو جبر کے استعمال سے فوت ہو جاتی ہے۔ مذکورہ آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نبی کریم ﷺ لوگوں کو زبردستی مسلمان کرنا چاہتے تھے بلکہ آپ کے توسط سے لوگوں کو پیغام پہنچانا مقصود تھا کہ کوئی کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بنا سکتا اور نہ ہی کوئی انسان جبراً اسلام قبول کر سکتا ہے اور نہ ہی اللہ کو جبری مسلمانوں کی ضرورت ہے۔ غیر مسلم معاشرے تو درکنار مسلمان معاشروں میں بھی دینِ اسلام پر عمل مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دین پر سختی سے عمل پیرا افراد کی نہ صرف حوصلہ شکنی کی جاتی ہے بلکہ انہیں انتہا پسند اور مذہبی قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ایک محاذ قائم کر لیا جاتا ہے، خاص طور پر داڑھی اور پردے کو شدت پسندی کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ مصر کے سابق فوجی صدر حسنی مبارک کے دور حکومت میں کسی داڑھی والے شخص کو اہم سرکاری عہدے پر فائز نہیں کیا جاتا تھا۔ پولیس کے اہلکاروں کے داڑھی رکھنے پر سخت پابندی عائد تھی۔ مصر کے موجودہ صدر محمد مرسی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آئے تو انہیں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے داڑھی رکھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ حال ہی میں مصر کی ایک عدالت نے پولیس اہلکاروں کے داڑھی رکھنے پر عائد پابندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی اجازت دے دی ہے۔ داڑھی کو مذاق یا تنقید کا نشانہ بنانے والے مسلمان گستاخی رسول کے مرتکب ہیں۔ نبی کریم ﷺ لوگوں کو زبردستی مسلمان نہیںکرنا چاہتے تھے بلکہ آپ کے توسط سے لوگوں کو پیغام پہنچانا مقصود تھا کہ کوئی کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بنا سکتا اور نہ ہی کوئی انسان جبراً اسلام قبول کر سکتا ہے اور نہ ہی اللہ کو جبری مسلمانوں کی ضرورت ہے۔ قرآن پاک میں ہدایت کا پیغام کھول کر بیان کر دیا گیا ہے، پس نبی اگر سچے دل سے چاہے بھی تو کسی پر دین مسلط نہیں کر سکتا۔ دین اسلام سے کھیلنے، اس کا غلط استعمال کرنے اور اس کو مذاق بنانے والوں پر اللہ ”گندگی“ ڈال دیتا ہے، یعنی اسے دنیا و آخرت میں ذلیل کر دیتا ہے۔

مزیدخبریں