دکھوں کی ترجماں ہے سیاست کی داستاں
میں کیا کہوں ہے کیسی حکومت کی داستاں
کشمیر مل سکا نہ بنا کالا باغ ڈیم
ہے نون شین اجڑی محبت کی داستاں
کشمیریوں کو دل سے ہے شاید بھلا دیا
انڈیا سے چل رہی ہے تجارت کی داستاں
کل کہہ رہے تھے چند غریبان قوم یوں
پھیلے گی اب وطن میں بغاوت کی داستاں
امریکہ ہندو اور یہودی سب ایک ہیں
ڈالر سمیٹنا بھی ہے دولت کی داستاں
اب قتل کر رہے ہیں غریبوں کو حکمراں
شاید قریب ہی ہے قیامت کی داستاں
ارشد اب اس وطن کی تباہی قریب ہے
اب فوج ہی سنائے گی عزت کی داستاں