بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی نے شاید درست ہی کہا تھا کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا نقلی ۔ یہ بات اس وقت اور بھی درست لگتی ہے جب ہم ملکی تاریخ میں بظاہر اصلی ڈگری کے حامل افراد کے کردار پر نظر ڈالتے ہیں ۔ ان پڑھ ، جاہل اور گنوار سیاستدانوں نے جو ہمارے ملک کے ساتھ کیا سو کیا یہاں بڑے بڑے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی فارغ التحصیل شخصیات نے بھی اس ملک کی سیاست ، جمہوریت اور معیشت کو تباہ کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ۔ اصل محب وطن غریب پاکستانیوں تک تو علم کی شمع کی روشنی پہنچنے نہیں دی گئی ۔ اس ملک کی تعلیمی پالیسی بنانے والے بہت سے لوگ بشمول ماہرین ، سیاستدان ، بیوروکریٹ، آئینی حقوق و ضع کرنے والے وکلاء، جج صاحبان اور سیاستدان سب کے سب اس ملک کو اپنی اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں کے بل بوتے پر نوچتے رہے ہیں ۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آج پاکستان جہاں کھڑا ہے اسے یہاں تک پہنچانے میں اصلی تعلیمی ڈگری کے حامل افراد کا زیادہ ہاتھ ہے ۔ستم یہ ہے کہ ملک میں ملازمتوں اور اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے لیے تعلیمی ڈگریوں کی جو شرائط رکھی گئی ہیں ان کے باعث لوگ تعلیم سے زیادہ ڈگری کے حصول میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔ لگتا ہے عوام کو ڈگری کے نام پر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے ۔ایک وقت تھا کہ لوگ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے تھے مگر آج لوگ تعلیم سے زیادہ ڈگری حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں ۔ اب ایسے میں غریب عوام کی ان پڑھ اکثریت امیر عوام کی پڑھی لکھی اقلیت کی اجارہ داری کو کیسے ختم کرے ۔یہ پڑھے لکھے لوگوں کا مافیہ ملک کے دوردراز اور پسماندہ علاقوں میں تعلیم کی سہولتیں کیونکر فراہم کر یگا جب انہیں خدشہ ہو کہ ان علاقوں کے لوگ تعلیم حاصل کر کے انکی آئندہ نسلوں سے اپنے حقوق چھیننے کے قابل ہو جائیں گے ۔ یہ پڑھا لکھا آخر کیوں سرکاری سکولوں کے غریب بچوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ ،پینے کا صاف پانی ، کلاسوں میں کرسیاں اور کھیلنے کا سامان فراہم ہونے دے گا جب تک ان کے اپنے بچے ان سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھینگے ۔ ایسے ماحول میں جو بچے تعلیم اور ڈگری حاصل کرینگے تو انکی تعلیم اور ڈگری انکے اور ملک و قوم کے لیے کتنی سودمند ہوگی ۔ تو پھر ملک کی غریب عوام کی اکثریت کے ساتھ ڈگری کی شرائط مسلط کر کے مذاق کیوں کیا جارہا ہے ۔ حق تو یہ ہے کہ جب تک اقتدار میں بیٹھا ڈگری یافتہ مافیا پورے ملک میں یکساں تعلیمی معیار اور سہولتوں کی فراہمی یقینی نہیں بناتا اسوقت تک ملازمتوں کے لیے محض تعلیمی ڈگری کو غریب عوام پر مسلط کرنا ظلم ہے ۔ اور خاص کر جب تک تعلیم کے شعبے میں یکساں نظام اور معیار رائج نہیں ہوتا اسوقت تک اقتدار کے مزے لوٹنے والے امرا کے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم یافتہ بچے ہی اعلیٰ ملازمتوں کے حقدار بنتے رہیں گے ۔ ایسے میں کونسی اصل ڈگری اور کیسی جعلی ڈگری ۔ آخر دونوں میں فرق ہی کیا ہے ۔ سوائے اس کے جعلی ڈگری کا حامل بااثر شخص یقینا اس ڈگری کے بل بوتے پر بہترین ملازمت بھی حاصل کر لے گا ۔ جبکہ اصلی ڈگری کا حامل غریب آدمی نتائج میں بہتری کے لیے تعلیمی بورڈز کے دفاتر میں امتحان کے لیے بار بار چکر لگاتا رہے گا ۔
پاکستان کے آئین میں تعلیم ہرشہری کا بنیادی حق ہے اور بنیادی حقوق کے حصول کے لیے ہر شہری قانون کے مساویانہ سلوک کا حقدار ۔ ملازمتوں کے لیے تعلیم کی کڑی قانونی شرائط اسوقت امتیازی سلوک بن جاتیں ہیں جب تمام شہریوں کو تعلیم کی بنیادی سہولتوں تک برابر کی رسائی نہیں دی جاتی اور انکو ناقص حکومتی پالیسوں کے باعث وہ معیار تعلیم نہیں ملتا جو بااثر اور امیر لوگوں کی دسترس میں ہوتا ہے ۔ ایسے میں نامور نجی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل بچے اور ایک سرکاری سکول کے پڑھے بچوں میں ملازمتوں کے لیے مقابلہ شفاف کیسے ہو سکتا ہے ۔اشرافیہ کی ایک ایسی جماعت تیار ہو رہی ہے جو بڑے اداروں اور اقتدار پر اپنا قبضہ مضبوط کر چکی ہے یہ جماعت آخر کیونکر غریب لوگوں کے مفادکا سوچتے ہوئے سرکاری سکولوں کے معیار و ماحول تعلیم کو بہتر بنائے گی۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے تعلیمی میدان میں اشرافیہ کی ایک نئی نسل جنم لے رہی ہے۔ غریبوں کی نمائند گی کا دعوی کرنے والے سیاست دان اور حکمران سب کے سب اپنے بچوں کو بہترین نجی سکولوں بلکہ بیرون ملک تعلیمی اداروں میں داخل کرا کے اس اشرافیہ کا حصہ بنتے جا رہے ہیںجس کے خلاف وہ علم بغاوت بلند کر کے عوام سے ووٹ کے طلب گار ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کو تعلیم سے زیادہ ڈگری کے حصول پر لگا دیا گیا ہے اور پھر ڈگری والوں سے بھی جان چھڑانے کے لیے انٹری ٹیسٹ ،یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے خصوصی امتحان اور پیشہ وارانہ لائسنسوں کے حصول کے لیے این ٹی ایس نظام متعارف کرایا گیاہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کے حصول کے باوجود انٹری ٹیسٹوں اور پیشہ وارانہ امتحانات کے ذریعے جس طریقے سے ڈگریوں کی تذلیل کی جا رہی ہے اس کے بعد اصلی اور جعلی ڈگریوں کی بحث بے معنی لگتی ہے جعلی ڈگری والے صاحب اگر کوئی انٹری ٹیسٹ یا پیشہ وارانہ امتحان اصل میں پاس کر لیں تو پھر اس کی ڈگری کے اصلی یا جعلی ہونے کی بحث کا فائدہ ۔ ویسے بھی اصلی اور جعلی ڈگریوں کی بہت سی اقسام مارکیٹ میں آگئی ہیں۔ایک ڈگری وہ ہے جو باقاعدہ تعلیم کے ساتھ تسلیم شدہ اصلی ادارے کی اصلی مہر والی ہے ایک ڈگری وہ ہے جو بغیر امتحان میں بیٹھے اصلی مہر کے ساتھ حاصل کی گئی ہے۔ایک ڈگری وہ ہے جو کسی جعلی ادارے کی جعلی مہر والی ہے ۔ ایک ڈگری وہ ہے جو اصلی ادارے اور اصلی مہر کے ساتھ مگر بغیر روزانہ حاضری کے محض امتحان میں بیٹھ کر حاصل کی گئی ہے۔ ایک وہ ڈگری ہے جو مکمل حاضری مگر مکمل نقل مار کر حاصل کی گئی ہے۔ اور پھر ایک ڈگری وہ ہے جو اصلی تو ہے مگر ایسے بد دیانت اور بزدل انسان کے پاس ہے کہ جو اسکا استعمال مفاد عامہ کی بجائے ذاتی مفاد کے لیے ہی کرتا ہے۔ ایک اور ڈگری وہ ہے جسکا حامل ملازمت حاصل کرنے کے بعد نجی تعلیمی اداروں پر کیے گئے اپنے اخراجات کی وصولی کے لیے تمام جائز و ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ ایک ڈگری وہ ہے جو تھرڈ ڈویژن بھی ہو تو خیر ہے اگر ڈگری کا حامل اپنی طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لے۔ ایسے شخص کے آگے تو بڑے بڑے پی ایچ ڈی بھی پانی بھرتے ہیں۔ اگر ڈگری سے انسان کی ڈگر بدل جاتی تو سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی اپیل کی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران مرحوم گورنر کی پارٹی کے بڑے بڑے قانون دان اسلام آباد کی ہائی کورٹ میں ہر تاریخ پر اظہار یکجہتی کے لیے موجود ہوتے۔ یہی قانون کی ڈگریوں کے حامل وکلاءکے نظم وضبط سے متعلق بنائے گئے قانون بار کونسل ایکٹ اور ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے وکالت کے ساتھ ساتھ ٹی وی چینلوں پر پروگرام کرنے کے عوض لاکھوں روپوں کا معاوضہ نہ لیتے اور نہ ہی ان پروگراموں میں اپنے مخالفین کو یکطرفہ طنزو تنقید کا نشانہ بناتے افسوس تو ان میڈیا مالکان کی ڈگری پربھی ہوتا ہے جو ان کو ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ بلوچستان کے سابق وزیراعلی اسلم رئیسانی کی بات پر ہم جتنا بھی ہنس لیں مگر ان کی اس بات پر مذکورہ تناظر میں سمجھ کر یقین بھی آتا ہے کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی اصلی ہو یا نقلی ۔۔
اوئے اصلی ڈگری والو!
Feb 23, 2015