اسلام آباد ( وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ سینٹ انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار متوسط طبقے سے نہیں، یہ امیدوار ارب پتی یا افسرشاہی کے نمائندے ہیں۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ افسرشاہی کو خریدنے کیلئے ایک ٹکٹ رشوت کے طور پر دی گئی۔ عمران خان کو پہلی بار صرف انتخابات کے موقع پر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اپنی جماعت بنانے کا خیال آیا ہے۔ تبدیلی کے دعویدار سیاسی بھگوڑوں کو شامل کر کے نئی جماعت بنا رہے ہیں، جس طرح خیبر پی کے میں عوام سے ووٹ لیکر انہیں بھول گئے، اسی طرح گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی انتخابات کے بعد بھول جائیں گے۔ جس کو سربراہ بنایا گیا وہ پہلے ہی درجنوں باریاں لے چکے ہیں۔ عمران خان تبدیلی لانے کے دعوے کر رہے ہیں مگر دیگر جماعتوں کے سیاسی بھگوڑوں کو ری سائیکل کر کے نئی جماعت بنا رہے ہیں۔ آزاد کشمیر میں افسر شاہی کو خریدنے کیلئے ایک ٹکٹ رشوت کیلئے دیا گیا۔ ہم نے پارٹی ٹکٹ قابلیت، اہلیت اور جدوجہد کی بناء پر کارکنوں کو دئیے ہیں۔ یورپی یونین کے الیکشن مبصرین کی سربراہ نے2013ء کے انتخابات کو شفاف قرار دیا ہے۔ مائیکل گارمز کے مطابق انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلی نہیں ہوئی۔ عمران خان کو پہلی بار گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اپنی جماعت بنانے کا خیال آیا ہے، ووٹ لیکر خیبر پی کے کے عوام کو بھول گئے، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام سے بھی ووٹ لے کر بھول جائیں گے۔ دریں اثناء ایک انٹرویو میں پرویز رشید نے کہا ہے کہ معاشی بحالی، دہشت گردی کے خاتمے اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں، اسی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں ملیں، اگر حکومت اور فوج کا موقف یکساں نہ ہوتا تو دھرنے والے تو ہمارے دروازے تک آ گئے تھے، عسکری قیادت دھرنے سے پیدا شدہ صورتحال کو درست نہیں سمجھ رہی تھی، دھرنے کے پس منظر میں بعض ریٹائرڈ فوجی بہت سرگرم تھے، وہ دھرنے والوں کو گائیڈ کر رہے تھے۔ زیرو لوڈشیڈنگ وزیر اعظم کا ماٹو ہے، مارچ میں ایل این جی درآمد ہونے سے گیس کی قلت میں کمی ہو گی، مہنگائی کی شرح اپنے دور میں 12فیصد سے سے ساڑھے چھ فیصد تک لانے میں کامیاب ہوئے۔ 12 اکتوبر کو نواز حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ابتداء میں مجھے دس بارہ دنوں تک پارلیمنٹ لاجز میں میرے کمرے میں رکھا گیا۔ فوج اورسیاستدانوں دونوں نے ماضی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ سکیورٹی اس حد تک ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کا ایجنڈا ، دہشت گردی کے خاتمے کا ایجنڈا ، دوسرے ممالک سے معاشی امداد کا ایجنڈا، اس میں جتنی کامیابیاں اب تک ہوئیں ان میں عسکری رویئے کا بڑا دخل ہے، وزیراعظم جہاں سے ہو کر آتے ہیں یا جہاں انہیں جانا ہے وہیں آرمی چیف جاتے ہیں، اگر آرمی اور سیاسی قیادت کے موقف میں تضاد ہوتا تو پھر وہ کامیابیاں نہ ملتیں جو ملی ہیں، ہماری حکومت بننے سے پہلے مغربی پریس ہمارے متعلق کیا تھا اور اب کیا لکھتا ہے، اب غیر ملکی خارجہ دفاتر ہمارے بارے طرح طرح کی باتیں کیوں نہیں کرتے، اگر ایک صف میں نہ ہوتے تو دھرنا تو ہمارے دروزے تک تو پہنچ گیا تھا، قبریں بھی کھودی گئی تھیں، کفن بھی پہن لئے گئے تھے۔ ہماری پارٹی کی چاروں صوبوں میں حکومت نہیں تین صوبوں میں دوسری پارٹیاں برسراقتدار ہیں، اٹھارہویں ترمیم سے اختیارات صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں، سینٹ میں ہماری اکثریت نہیں۔ ہر فیصلے کے قانونی تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں، فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے پیسے نہیں ہوتے، ہماری حالت ایسی ہو گئی تھی کہ زر مبادلہ کے ذخائر بہت کم تھے، ڈالر کی قیمت ہمارے ہاتھ سے نکل گئی تھی۔ ہم نے اداروں کے سربراہ لگانا شروع کئے تو سپریم کورٹ نے حکم امتناعی لگا دیا، ہماری حکومت کے پہلے چھ ماہ سابق چیف جسٹس چودھری افتخار نے ضائع کر دیئے، پہلے حکم ہوا کہ اشتہار دو گے، پھر بورڈ بنے گا، پھر شارٹ لسٹنگ ہو گی، اب یہ کوئی کلرک کا اشتہار تو نہیں کہ پانچ چھ ہزار لوگ درخواستیں لے کر آ جائیں ، دنیا میں کون سا ملک ہے جس کے چیف ایگزیکٹو کا اشتہار دیا جاتا ہے، قابل آدمی اور اپنے فن کا ماہر کبھی درخواست نہیں دیتا۔ وزیر اعظم نے وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی سے استفسار کیا کہ انہوں نے ایک سال میں گیس ٹرمینل کس طرح تیار کیا ہے تو شاہد خاقان عباسی نے جواب دیا کہ اگر یہ ٹرمینل سرکاری سیکٹر بناتا تو چار پانچ سال لگتے، لیکن پرائیویٹ سیکٹر نے دن رات کام کر کے اسے ایک سال میں مکمل کرلیا، سرکار کے کاموں میں بڑا وقت لگتا ہے، جہاں کوئی رشوت نہیں دے گا، فائل رک جائے گی۔ اب پی ٹی وی کی مثال ہی لے لیں، میں سمجھتا ہوں کہ نیوز ڈائریکٹر ٹھیک کام نہیں کر رہا لیکن میں اسے تبدیل کروں گا تو ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا، وہ عدالت سے حکم امتناعی لے آئے گا۔ ایل این جی کی درآمد کیلئے قطر اور ملائیشیاء سے بات چیت چل رہی ہے، مارچ میں مسئلہ حل ہو جائے گا۔ پٹرولیم کی قیمت کم ہونے سے عوام کو ریلیف ملا ہے اور افراط زر کی شرح 12فیصد سے 4.6فیصد پر آ گئی ہے، اس کا مطلب ہے مہنگائی میں کمی ہوئی ہے۔ توانائی بحران دور کرنے کیلئے بجلی کے قلیل اور طویل المدت منصوبے بنائے ہیں۔ بجلی کی طلب اور رسید میں فرق کم کرنے کی پوری کوششیں کر رہے ہیں۔