بنیادی باتیں، چھپی دوستیاں

Feb 23, 2016

شازیہ ارم....بنیادی باتیں

معاشرے میں کچھ بُرائیاں تیزی سے بہت عام ہو رہی ہیں ان میں سے ایک مردوں اور عورتوں کی چُھپی دوستیاں بھی ہیں۔ اسکی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ان کو پنپنے کیلئے ماحول بہت سازگار مل رہا ہے۔ اس میں بات خواہ عورت مرد کے کھلم کھلا میل ملاقات سے شروع ہو کر کئی عزتوں، جانوں اور گھروں کی پامالی تک پہنچے یا قتلوں اور خودکشیوں تک، ہر صورت میں فساد اور بربادی ہی کی طرف پیش رفت ہوتی ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم جس نام نہاد روشن خیال اور ماڈرن معاشرے کے حامی بنے ہوئے ہیں وہ ہمیں کیا دے رہا ہے یا مستقبل میں یہ معاشرہ کیا رنگ اختیار کریگا۔ اگر آج ہم نے اپنی حدود متعین نہیں کیں تو ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی نام نہاد آزادی اور ماڈرن ازم ہمیں تباہی کے اس دہانے پر پہنچا دیگا جس کا تجربہ آج یورپی اقوام کر رہی ہیں جہاں پر فیملی سسٹم تیز ی سے تباہ ہو رہا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں شرم و حیا یا پردے کی بات کرنا ایسے ہے گویا آپ بہت معیوب بات کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کچھ حدود متعین کی ہیں تو اس میں کس قدر حکمت ہے۔ سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ نبیؐ کی بیویوں کو کچھ ایسی ہدایات دے رہے ہیں جو ان کے کردار اور اعمال سے متعلق ہیں۔ اسکی یہ وجہ بتائی جا رہی ہے کہ اللہ کا مقصود ہے انکے کردارکو پاکیزہ کرنا اور کسی بھی قسم کی گندگی کو ان سے ہٹانا اور ساتھ ساتھ یہ بھی زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں سنائی جانیوالی اللہ کی آیات اور حکمت کی باتوں کو یاد رکھیں -اب وہ حکمت کی باتیں یا اللہ کی ہدایات کیا ہیں کہ جب کوئی عورت کسی غیر مرد سے بات کرے تو صاف سیدھی بات کرے نہ کہ آواز کے اتار چڑھائو سے یا نازو انداز سے کسی غیر مرد کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دی گئی ہے کہ اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ اب ہم خود سوچ لیں کہ آج ہمیں میڈیا جو کچھ سکھا رہا ہے یا ہمارے معاشرے میں نوجوان نسل جس طرف چل نکلی ہے ،وہ میرے اللہ کے نزدیک جاہلیت ہے او راس میں کوئی شک نہیں کہ اسکے جو نتائج سامنے آ رہے ہیں، جس طرح سے بچے بچیوں کی زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں گھر خراب ہو رہے ہیں اور پورے معاشرے کا ماحول خراب ہو رہا ہے ،اس کے پیچھے غالبا نئی نسل میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ قرآن میں جس پردے کا حکم دیا گیا ہے وہ ان کی ترقی میں رکاوٹ بنے گا حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ ایک ڈھکی چھپی با حیاعورت اپنے آپ کو زیادہ مضبوط اور محفوظ سمجھتی ہے وہ اپنے مقصد کے حصول میں زیادہ Focused ہوتی ہے ، ارد گرد کی آلائشیں اس کا راستہ کھوٹا نہیں کر سکتیں۔ اصل میں پاکیزگی ،کردار یا بلند کرداری انسان کی وہ Strength ہوتی ہے وہ اندر کی مضبوطی ہوتی ہے جو زندگی کے سفر میں اسے گرنے نہیں دیتی ،کوئی مشکل کوئی آزمائش انسان کو کمزور نہیں کر سکتی اگر اس کا کردار مضبوط ہے۔ یہ بلند کرداری صرف عورتوں کیلئے نہیں مردوں کو بھی سورۃ نور میں اللہ تعالی ہدایت فرماتے ہیں کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہی ہدایت مردوں کے بعد عورتوں کو بھی کی گئی لیکن عورتوں کو ایک اضافی ہدایت یہ کی گئی کہ اپنا بنائو سنگھار نہ دکھائیں اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھینوںکے آنچل ڈالے رہیں اس لئے عورت پرذمہ داری ذرا زیادہ آ جاتی ہے کہ وہ مرد کیلئے آزمائش نہ بنے لیکن آج ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں کہ فیشن کے نام پر خصوصی بنائو سنگھار ہوتا ہے۔ لباس ایسا زیب تن کیا جاتا ہے جس سے جسمانی خوبصورتی خوب واضح ہو۔ اصل میں جو ان تمام احکامات کی حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ مرد اور عورت کے کھلم کھلا میل جول کی حوصلہ شکنی کی جائے اگر یہ میل جول کسی مجبوری کی وجہ سے نا گزیر ہو تو پھر عورت کا حلیہ یا بات چیت اس طرح کی نہ ہو کہ وہ غیر مرد کیلئے پر کشش ہو اور مرد کو بھی نگاہیں جھکانے کا حکم دیا گیا تا کہ بے حیائی کے پھیلنے کے موقع کم سے کم ہوں۔ اسلام نے نکاح کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ایک مرد کو چار بیویاں تک رکھنے کی اجازت دی ہے لیکن وہ اس صورت میں کہ وہ ان چاروں کے حقوق و ضروریات کو بخوبی پورا کر سکے۔ اپنے فرائض بخوبی انجام دے سکے۔ اس میں بھی دیکھا جائے تو ساری ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے اگر وہ ایک سے زیادہ گھر چلانے کی قوت و استعداد اور حوصلہ رکھتا ہے تو ٹھیک ہے اس کو اس بات کی اجازت دے گئی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ گھر بنائے لیکن چھپا کر نکاح کرنے کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ اس سے نہ صرف پہلی بیوی بے توجہی کی وجہ سے پریشان ہوتی ہے بلکہ دوسری بیوی بھی معاشرے میں کوئی شناخت حاصل نہیں کر پاتی۔ اس طرح بچے بھی ماں باپ کی غلطیوںکا خمیازہ بھگتتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ماں باپ بچوں کی پرورش اور تربیت میں اس امر کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں کہ آنے والے وقت میں خاندان میں اور معاشرے میں ان کا جو رول بنتا ہے اسے بہتر یں انداز میں ادا کر سکیں، اگر بچی ہے تو وہ مضبوط کردار کے ساتھ ہی ایک بہترین بیٹی، بہن اور ماں کا کردار نبھا سکتی ہے اور اگر بچہ ہے تو وہ بھی تمام کرداروں کیساتھ انصاف نہیں کر سکتا اگر اس کی نگاہ اور ذہن صاف نہیں اور یہ تربیت بیرونی عوامل سے شروع ہو کر روح کی پاکیزگی تک جاتی ہے۔

مزیدخبریں