لاہور (ندیم بسرا) بھارتی آبی جارحیت کو روکنے کے لئے وفاقی حکومت نے 2008-9 میں نیلم جہلم پراجیکٹ جیسے بڑے میگا منصوبے کا آغاز کیا۔ مگر اس کا ڈیزائن فائنل نہ کرنے اور کنٹریکٹ دینے کی جلدبازی نے کئی مشکلات کو جنم دیا ہے۔ اس میں سب سے بڑی مشکل اس کی لاگت میں 320 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا اور منصوبے کا بروقت مکمل نہ ہونا تھا۔ منصوبے کو بروقت مکمل کرنے کے لئے صارفین کی جیب پر 40 ارب روپے کا ڈاکہ بھی مارا گیا۔ 2005ء کے زلزلے کے بعد آزاد کشمیر میں جغرافیائی تبدیلیوں نے منصوبے کے لئے کئی مشکلات کھڑی کر دیں۔ منصوبہ 2016 میں مکمل ہوجانا تھا مگر واپڈا انتظامیہ کی عدم توجہ کوئلے اور دیگر متبادل توانائی سے بجلی بنانے کی حکومتی ترجیحی پالیسیوںسے منصوبہ مسلسل تاخیر کا شکار ہوا ہے۔ اس بارے میں بتایا گیا ہے کہ وزارت پانی و بجلی اور واپڈا نے نیلم جہلم پن بجلی منصوبہ ڈیزائن کے بغیر شروع کیا۔ واپڈا نے عجلت میں نیلم جہلم کا 969 میگاواٹ کا منصوبہ کسی پلاننگ اور ڈیزائن کے بغیر شروع کیا جس کی وجہ سے اس کی لاگت میں تقریباً 320ارب روپے کا اضافہ ہو گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نیلم جہلم منصوبہ کے فنڈز کے لئے 10 پیسے فی یونٹ کا سرچارج نیلم جہلم سرچارج کے نام سے ماہانہ ہر صارف کے بل پر لگایا گیا اور ملک بھر کے صارفین سے 40 ارب روپے اکٹھے کئے گئے مگر یہ منصوبہ وقت پر مکمل ہوا نہ ہی صارفین کو سستی بجلی مل سکی۔ 2008-9 میں پہلے پی سی ون منصوبے کی لاگت 84ارب روپے لگائی گئی بعد ازاں نئے ڈیزائن کی لاگت بڑھ کر 273 ارب روپے ہو گئی، پی سی ون پر نظر ثانی کی گئی تو منصوبے کی لاگت 404 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ وزارت کے ذمہ دار افسروں کا کہنا ہے کہ شروع میں منصوبہ جلدبازی میں بنایا گیا۔ زلزلے کی وجہ سے منصوبے کا سکوپ آف ورک بڑھتا رہا اور قیمت بڑھتی گئی۔ متاثرین کے رقبے بھی بڑھے۔ دنیا میں ہونیوالی معاشی تبدیلیوں نے پاکستان کی معیشت پر اثر ڈالا جس سے روپے کی قیمت گری ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ ان عوامل نے لاگت کو بڑھایا جس کی وجہ سے منصوبے میں تاخیر بھی ہو گئی۔